ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے متعلق اپیل پر سماعت میں وکلا کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے عدالتی معاونین فیصل صدیقی، معیز جعفری اور اکرم شیخ کے دلائل سننے کے بعد سماعت ملتوی کر دی۔
عدالتی معاون معیز جعفری کے دلائل
سماعت کے دوران عدالتی معاون معیز جعفری نے کہا کہ آرٹیکل 209 کی شق 5 اور 6 مختلف ہیں، آرٹیکل 209 کی شق 5 کونسل کو جج کے خلاف آزادانہ کارروائی کا حق دیتی ہے۔
آرٹیکل 209 کی شق 5 کے تحت ماضی کے مس کنڈکٹ پر بھی کونسل جج کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے جب کہ آرٹیکل 209 میں لفظ ’جج ‘ استعمال ہوا ہے، ناکہ حاضر سروس جج اس لیے ججز کے خلاف کارروائی کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ اگر ججز پر عام قوانین لاگو ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی، ججز پر خوف کی تلوار لٹکتی رہے گی کہ ایف آئی اے یا نیب ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخلیل نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے کونسل جج کے خلاف کارروائی کرے اور مزید کارروائی کے لیے دیگر اداروں کو معاملہ بھجوائے ؟
اس پر معیز جعفری نے کہا کہ میری رائے میں ججز کے خلاف کوئی بھی کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل تجویز کرسکتی ہے۔ اگر عام قوانین کا اطلاق ججز پر ہوا تو ریٹائرمنٹ کے اگلے دن ہر جج انسپکٹر کے سامنے بیٹھا ہوگا۔
اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔
جس پر معیز جعفری نے کہا کہ میرا مؤقف صرف یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے فورم سے پہلے ججز کو انکوائری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل سے گزرنا ہوگا۔ جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کے بعد کونسل کی جانب سے برطرفی کی سفارش غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔
عدالتی معاون اکرم شیخ کے دلائل
عدالت میں بحث کے دوران سینیئر وکیل اور عدالتی معاون کار اکرم شیخ نے کہا کہ ایک بار سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کا آغاز کردے تو ختم نہیں ہوسکتی۔ جج کا مس کنڈکٹ اور اس کے جج نہ بننے کی اہلیت رکھنا دو الگ چیزیں ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جس جج کے خلاف کارروائی ہورہی ہو کونسل کا انحصار اس کی مرضی پر ہونا نا ممکن ہے۔
جج کے استعفے پر کارروائی ختم ہونے سے یہ تاثر جائے گا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کی مرضی پر منحصر ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے احتساب ضروری ہے۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائرڈ ہو جائے اور اس کے خلاف کارروائی کی استدعا ہو تو کیا ہوگا۔ اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ فرخ عرفان کا نام پانامہ پیپرز میں آیا لیکن وہ مستعفی ہو گئے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ جسٹس فرخ عرفان کے استعفے کے بعد ان کے خلاف کارروائی بھی رک گئی تھی۔ جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ ججز کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے حق میں نہیں ہوں، مزید دلائل کے لیے وقت درکار ہے۔
اکرم شیخ کے دلائل آنے کے بعد جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیس کی مزید سماعت 21 فروری کو کریں گے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ میرا ججز کے خلاف کارروائی پر مؤقف مختلف ہے، کیا میری معاونت عدالت کو درکار ہوگی، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کا مؤقف عدالت سننا چاہتی ہے۔