فضل الرحمٰن سے مقابلہ دلچسپ رہا، انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں، خوشحال خان

منگل 20 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا، این اے 265 میں فضل الرحمٰن کے ساتھ مقابلہ دلچسپ رہا، مگر نتائج سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے خوشحال خان نے کہاکہ میں این اے 251، این اے 262 اور این اے 265 سے میدان میں اترا تھا، پشین میں ہم نے 3 روز تک مہم چلائی اور اس دوران عوام کی جانب سے اچھا ریسپانس ملا۔

مزید پڑھیں

این اے 251 میں پہلے کامیابی اور بعد میں ناکامی کیسے ہوئی؟

خوشحال خان نے کہاکہ این اے 251 ہمارا آبائی حلقہ ہے جہاں ہم ابتدا میں 21 ہزار ووٹوں کی لیڈ پر تھے لیکن وہ لیڈ کم ہوتے ہوتے 900 ووٹوں تک آگئی۔ پھر 2 روز تک ہمارے ووٹ ڈپٹی کمشنر کی تحویل میں تھے جس پر ہم نے احتجاج کیا۔

انہوں نے کہاکہ انتظامیہ نے ہمارے ساتھ دھاندلی کی جس کی وجہ سے ہماری 21 ہزار کی لیڈ کم ہوتے ہوتے 949 تک پہنچ گئی۔ انتظامیہ جب ڈیٹا اپ لوڈ کر رہی تھی تب وہاں سے ہمارے پوسٹل بیلٹ ڈپٹی کمشنر ژوب کے گھر لے جائے گئے اور وہاں یہ منصوبہ بنا کہ پوسٹل بیلٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنی ہے۔ اس دوران ہمیں فارم 47 دیا گیا جس کے خلاف ہم نے آر او کو درخواست دی جو اس نے وصول نہیں کی۔

انہوں نے کہاکہ اگلے روز جب پوسٹل بیلٹ کی گنتی ہوئی تو اس میں ہمیں 405 ووٹ ملے اور ہمارے مخالف کو 1450 ووٹ ملے۔ ’اب یہاں حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حلقہ کی 3 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کھڑے تھے، ان کے پوسٹل بیلٹ کہاں گئے، اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے پوسٹل بیلٹ کہاں گئے‘۔

کیا آپ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے؟

خوشحال خان نے کہاکہ ہم غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے اور کسی غیر جمہوری عمل میں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ ہم پاکستان میں بسنے والی 5 قوموں کو برابری دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ قوتیں ہٹانا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے ہم اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹیں اور ان کے لیے کام کریں جو ممکن نہیں۔ ہم اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن لینے کے کے تیار نہیں اگر اس کے لیے ہمیں کئی نشستیں بھی گنوانی پڑیں تو مسئلہ نہیں ہے۔

کیا احتجاج کے ساتھ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے؟

ایک سوال کے جواب میں خوشحال خان نے کہاکہ ہم انصاف کے ہر دروازے پر دستک دیں گے لیکن ہمارے ملک میں بدبختی یہ ہے کہ اداروں کا کردار مشکوک ہے۔ ہم احتجاج کر رہے ہیں جو ہمارا آئینی حق ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے جو سیاست اور ایوان کے ساتھ کیا یہ ایک بدترین مثال ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ ملک 76 سال کے دوران کہاں پہنچ گیا۔

’آئندہ آنے والے 5 سال میں عوام کو جس کرب سے گزرنا پڑے گا وہ اس احتجاج کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے‘۔

کیا دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے؟

خوشحال خان نے کہاکہ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا مسئلہ ہے جس پر ہم نے سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا لیکن ہمیں بہتر جواب نہیں ملا جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ تاہم ہم پھر بھی ان جماعتوں کے ساتھ رابطہ کریں گے اور وفاق و صوبے کی سطح پر احتجاج میں دیگر جماعتوں کے ساتھ شامل ہوں گے۔

کیا قوم پرست سیاسی جماعتیں صوبے میں ووٹر کھو چکی ہیں؟

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی جس کے ثبوت موجود ہیں۔ ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس بار نشستوں پر کروڑوں روپے کی بولیاں لگی ہیں تو ایسے میں کیا نتیجہ نکلے گا کہ قوم پرست جماعتوں فیل ہوئی ہیں یا سیاست۔ ہماری نظر میں نظام فیل ہو گیا ہے، صوبے میں تو قوم پرست سیاست مزید مستحکم ہوئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp