’عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ فلسطینیوں کی دنیا بدل سکتا ہے‘

منگل 20 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فلسطین پر اسرائیل کے ناجائر قبضے کی ’قانونی حیثیت‘ کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف میں گزشتہ روز دوران سماعت فلسطین کے وکیل پال رائیکلر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے پاس خاموشی کی مزید گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے فلسطینی شاعر محمود درویش کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنے اشعار میں لکھا ہے کہ کسی ظلم کے خلاف خاموش رہ کر ہم بھی اس ظلم میں شریک ہوجاتے ہیں لیکن اگر ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں تو ہمارا ایک ایک لفظ دنیا کو بدل سکتا ہے۔

وکیل پال رائیکلر نے کہا کہ اس عدالت کے الفاظ بھی ایسی ہی طاقت رکھتے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا کر دنیا کو بدل سکتی ہے، عالمی عدالت انصاف سے ریاست فلسطین کی یہی استدعا ہے۔

فلسطین پر اسرائیل قبضے کے خاتمے کا مطالبہ

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی، اقوام متحدہ کے نمائندے ریاض منصور اور دیگر قانونی ماہرین نے سماعت کے پہلے روز دلائل دیے اور عالمی عدالت انصاف سے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے اور اس کے نافذ کردہ نسلی امتیاز کے نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

یہ کیس جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ درخواست سے مختلف ہے۔ اس درخواست میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر فلسطین میں نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف نے اس مقدمے میں اسرائیل کو نسل کشی روکنے اور غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کی ہدایت کی تھی۔ عالمی عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر جنگ بندی سے متعلق کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی اس سلسلے میں ایک اور درخواست بھی مسترد کردی تھی جس میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اسرائیل کو مزید اقدامات کرنے کے احکامات دے اور ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنائے۔

زیر سماعت معاملہ کیا ہے؟

2022 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مشرقی بیت المقدس سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج سے متعلق عالمی عدالت انصاف سے قانونی رائے طلب کی تھی۔ تاہم اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف جو بھی رائے دے گی، وہ غیر مشروط ہوگی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے 2 اہم سوالات پر رائے طلب کی تھی۔ پہلا سوال یہ تھا کہ عدالت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج کا تجزیہ کرے، جس میں 1967 سے جاری قبضہ، غیرقانونی  بستیوں کی تعمیر، فلسطینی علاقوں میں آبادکاری اور مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے سے متعلق اسرائیلی اقدامات جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ پالیسیاں قبضے کی قانونی حیثیت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں اور صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اور تمام ملکوں کو اس کی وجہ سے کن قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ نیدر لینڈز کے شہر ہیگ میں واقع اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ’عالمی عدالت انصاف‘ میں اس معاملے پر سماعت 6 دن تک جاری رہے گی جبکہ قانونی بحث میں 50 سے زائد ملکوں کے نمائندے بھی حصہ لیں گے۔ عدالت ان دونوں سوالات پر اپنا فیصلہ ممکنہ طور پر رواں برس کے آخر تک سنائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp