سابق عالمی نمبر ون رومانیہ کی ٹینس اسٹار سیمونا ہالیپ نے غذائی سپلیمنٹ تیار کرنے والی کینیڈین کمپنی کے خلاف ایک کروڑ امریکی ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا ہے۔
32 سالہ سیمونا ہالیپ نے ’کوانٹم نیوٹریشن‘ کے خلاف اپنی درخواست امریکی ریاست نیویارک کی سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔ مذکورہ کمپنی ’شینوسا سپرفوڈز‘ کے نام سے بھی آپریٹ کرتی ہے۔ سیمونا نے اپنی درخواست میں چند دیگر افراد کو بھی فریق بنایا ہے۔
دو بار کی ٹینس گرینڈ سلیم چمپئن سیمونا ہالیپ پر گزشتہ برس ستمبر میں 4 سال کی پابندی عائد کی کی گئی تھی۔ 2022 کے یوایس اوپن کے دوران ان کے جسم میں ممنوعہ جزو کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔
مزید پڑھیں
سیمونا نے پابندی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مذکورہ کمپنی کا سپلیمنٹ استعمال کرنے کی وجہ سے ان کا ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور ان کے خون میں ’روکساڈسٹیٹ‘ جیسا ممنوعہ کیمیکل پایا گیا تھا۔
امریکا کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے مطابق، یہ کیمیکل کسی بھی ایتھلیٹ کے خون میں سرخ خلیوں کی تعداد کو بڑھاتا ہے اور کارکرگی کو بہتر بناتا ہے۔ یہ دوا اکثر خون کی کمی کے شکار افراد استعمال کرتے ہیں۔
سیمونا ہالیپ نے اپنی دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے 2022 میں یو ایس اوپن ٹورنامنٹ کے دوران شنوسا سپلیمنٹس کا استعمال کیا تھا، جس کے لیبل پر اجزا کی فہرست میں روکساڈسٹیٹ شامل نہیں تھا۔
سیمونا ہالیپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کوئی ممنوعہ اشیا استعمال نہیں کیں اور کوانٹم کی لاپرواہی اور سپلیمنٹ کے قانونی ہونے کے جھوٹے دعوؤں نے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچایا۔ سیمونا کے دعوے کے بعد کینیڈین کمپنی کی جانب سے ابھی تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔