اسرائیل کے مختلف شہروں میں گذشتہ دس ہفتوں سے جاری حکومت مخالف احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔
لاکھوں مظاہرین نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کے عزائم کے خلاف تاریخی احتجاج رقم کیا ہے۔
اسرائیل کی وزارت قانون کی جانب سے پارلیمانی قانون میں متعارف اصلاحات کے بعد سپریم کورٹ اسرائیلی پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکے گی۔
اس متنازعہ قانون کے ناقدین کا مؤقف ہے کہ اس مجوزہ قانون کو اسرائیلی وزیر اعظم اپنی بچت کے لیے استعمال کریں گے کیوں کہ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔
دوسری جانب نیتن یاہو نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ قانونی اصلاحات کا ان سے مقدمے سے کوئی تعلق ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتے کے روز اس مجوزہ قانون سازی کے خلاف تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں شہریوں نے ریکارڈ تعداد میں گھر سے نکل کر سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔
احتجاجی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ اسرائیل تاریخی بحران سے گزر رہا ہے جس میں اسے مسلسل دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ملکی معیشت تباہی سے دوچار جب کہ پیسہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔
’ایران نے سعودی عرب کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں لیکن ہماری حکومت کو اسرائیلی جمہوریت کو کچلنے کے سوا کسی چیز کی پرواہ نہیں۔‘
تل ابیب میں شریک مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی اصلاحات نہیں بلکہ اسرائیل کو مکمل آمریت کی طرف دھکیلنے کا منصوبہ ہے اور وہ آئندہ نسل کے لیے جمہوریت سے آراستہ اسرائیل چھوڑنے کے خواہاں ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے حکومت پر مظاہرین سے مذاکرات پر زور دیتے ہوئے حکومتی اتحاد سے قانون سازی کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے بھی ان اصلاحات کو جمہوریت کی بنیادوں کے لئے خطرہ قرار دیا۔
تاہم اسرائیلی پارلیمنٹ کی لا کمیٹی کے سربراہ سمچا روٹمین نے قانونی اصلاحات پر ووٹنگ سے قبل اتوار سے بدھ تک اس کے کچھ حصوں پر روزانہ سماعت کا شیڈول بنایا ہے۔
وزیر انصاف یاریو لیون کے مطابق حکومتی اتحاد اس قانون کو 2 اپریل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب نئی قانون سازی سے اسرائیل کی کابینہ کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے سکے۔
اصلاحات کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے 120 ارکان میں سے اگر 61 ارکان سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔