بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے نئے افراد کیسے رجسٹر ہوسکتے ہیں؟

بدھ 21 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ملنے والی سہ ماہی وظیفے اور بچوں کے تعلیمی وظیفے میں تقریبا 20 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ڈی جی بی آئی ایس پی نوید اکبر نے بتایا کہ سطح غریت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی 93 لاکھ مستحق خواتین کے لیے سہ ماہی کفالت کی رقم ساڑھے 10 ہزار روپے فی کس کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ رقم 8 ہزار 750 روپے تھی۔

اسی طرح مستحق خاندانوں کے بچوں کے تعلیمی وضائف میں بھی 500 روپے فی کس کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

نوید اکبر نے کہا کہ ’اس ماہ کے آخری یا مارچ کے پہلے ہفتے سے جاری ہونے والی رقم میں 1750 روپے کا اضافہ لاگو ہو گا‘۔

ڈی جی بی آئی ایس پی  کا کہنا تھا کہ تقریبا 89 لاکھ بچے اور بچیاں پروگرام کے تحت تعلیی وظائف حاصل کر رہے ہیں اور یہ وظیفہ اسکول میں 70 فیصد حاضری پر ملتا ہے۔

بچوں کو ملنے والا وظیفہ ماضی میں  پرائمری تک کے بچوں کے لیے 2 ہزار روپے فی سہ ماہی اور بچییوں کے لیے 2500 روپے سہ ماہی تھا۔ اس طرح چھٹی سے دسویں تک بچے کو 2500 روپے اور بچی کو 3 ہزار روپے دئیے جاتے تھے جبکہ دسویں سے بارہویں تک بچے کو 3500 اور بچی کو 4 ہزار سہ ماہی وظیفہ ملتا رہا ہے۔ تاہم اب ان سب وظائف میں 500 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح حاملہ خواتین یا 2 سال تک کے بچوں کو اضافی کیش ملتا ہے جو 2500 روپے بچے کے لیے اور  3000 بچی کے لیے والدین کو ادا کیا جاتا ہے اور یہ ہر سہ ماہی ادا کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ایک غریب خاندان کو بی آئی ایس پی سے کل ملا کر تقریبا 20 ہزار روپے فی سہ ماہی امداد ملتی ہے جس پر حکومت کا کل خرچ471  ارب روپے سالانہ ہے۔

بی  آئی ایس پی امداد کے لیے کیسے رجسٹرڈ ہوں؟

نوید اکبر نے بتایا کہ نئے افراد کو بی آئی ایس پی رجسٹرڈ کرنے کے لیے پہلے گھر گھر سروے کیے جاتے تھے جس میں 10 سال تک لگ جاتے تھے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلا سروے سنہ 2011 میں کیا گیا تھا اور پھر 2021 میں کیا گیا۔

تاہم اب ڈائنامک رجسٹریشن سینٹرز پورے ملک میں تحصیل کی سطح پر قائم کر دیے گئے ہیں جہاں کوئی بھی شہری جا کر سروے کے ذریعے رجسٹریشن کروا سکتا ہے اور یہ عمل چند منٹ میں مکمل ہو کر رزلٹ بھی مل جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہفتے میں 6 دن کسی بھی وقت رجسٹریشن کروائی جا سکتی ہے۔

مارکنگ سسٹم

اہل افراد کو چننے کے لیے ہر گھرانے سے ایک سوالنامے کے ذریعے حقائق جمع کیے جاتے ہیں اور ان کی غربت کا اسکور ناپا جاتا ہے۔ صفر سے 100 تک مارکنگ ہوتی ہے اور اس وقت رقم فراہم کرنے کا معیار یہ ہے کہ جس کا اسکور صفر سے 32 تک ہو اسے امداد مل جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سروے میں دیے گئے کچھ جوابات کی تصدیق بھی کی جاتی ہے۔

ہنر کے بجائے امداد کیوں؟

ڈی جی بی آئی ایس پی نوید اکبر نے بتایا کہ پروگرام غریب خواتین کے لیے انکم اور اخراجات کے درمیان خلا کو پر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ امداد اتنی زیادہ نہیں کہ اس سے لوگ سطح غربت سے اوپر چلے جائیں گے مگر یہ سپورٹ نہ ہو تو لوگوں کو زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا اور وہ مزید غریب ہو جائیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مالی امداد مقامی معیشت میں ہی مدد کرتی ہے جس سے خواتین مقامی مارکیٹ سے خریداری کرتی ہیں اور مقامی صنعت اور پیداوار کو مدد ملتی ہے۔

اس سوال پر کہ ہنر مند بنانے کے بجائے مالی مدد کیا لوگوں کو محتاج نہیں بنا رہی؟ نوید اکبر کا کہنا تھا کہ ہنرمند بنانے کے کئی پروگرام موجود ہیں مگر اس پروگرام سے ایسے ایسے لوگ مستفید ہو رہے ہیں جن کے گھر میں 2 وقت کا کھانا بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں بجلی، گیس اور پیٹرول پر سبسڈی دی جاتی رہی ہے جس کا صرف غریب کو نہیں بلکہ امیروں کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے جبکہ اس پروگرام سے براہ راست سبسڈی مل جاتی ہے‘۔

سندھ کی خواتین اور ہزار روپے کا نوٹ

نوید اکبر کا کہنا تھا کہ سنہ 2008 میں جب یہ پروگرام شروع کیا گیا تو سندھ میں مستحقیق میں کچھ عورتوں نے ایک ہزار کا نوٹ دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ انہوں نے 100 روپے کے سرخ نوٹ کے علاوہ کرنسی نوٹ دیکھا ہی نہیں تھا۔

تھرڈ پارٹی سروے کے مطابق امداد لینے والے 95 فیصد افراد حقیقی مستحق ہیں۔ اس سوال پر کہ ماضی میں سرکاری افسران سمیت غیر مستحق افراد کی پروگرام میں شمولیت کا انکشاف ہوا تھا، نوید اکبر کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کی تعداد صفر اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم تھی اور انہیں سال 2019 میں ہی نکال دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp