ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت سے غیر مشروط معافی کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کو بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے پیر تک دوسرے شوکاز کا جواب جمع کرانے کا حکم جاری اور کہا کہ آئندہ ہفتے اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی کی نظربندی کے کیس میں ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
’آپ کونسا آرڈر سمجھتے ہیں‘
آج سماعت کے آغاز پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن سے استفسار کیا کہ آپ کونسا آرڈر سمجھتے ہیں، آپ دوسرے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروائیں، غلطی سے لگا تھا کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس صرف آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے چل رہا ہے اور آپ کے وکلا کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا ہے، 970 دنوں کے 67 ایم پی او آرڈر کیے ہیں آپ نے، کیا جن لوگوں کے ایم پی او کے آرڈر دیے ہیں انہوں نے کہیں نہیں جانا تھا ؟
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے جسٹس بابر ستار سے کہا، ’آپ غصے میں ہیں، ٹھوڑی دیر بعد سماعت کرلیں۔‘
وکیل راجہ رضوان عباسی نے توہین عدالت کیس میں حتمی دلائل دیے اور ڈی سی اسلام آباد پر عائد فرد جرم کا متن پڑھ کر سنایا۔ بعدازاں، اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ یہ چارج کریمنل توہین عدالت پر عائد کیا گیا۔
’کیا بینچ اب آپ کی مرضی سے بنیں گے‘
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جسٹس بابر ستار پر اعتراض کرتے ہوئے کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے کی استدعا کر دی جسے جسٹس بابر ستار نے مسترد کردیا اور ریمارکس دیے کہ کیا اب بینچ آپکی مرضی سے بنیں گے، ہمیں اسکو ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ دلائل دیں۔
مزید پڑھیں
وکیل راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیے کہ ایم پی او جاری ہونے سے پہلے شہریار آفریدی پر 2 مقدمے درج ہو چکے تھے، ملک بھر میں 9 مئی کے بعد غیر معمولی صورتحال تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو نہیں بتایا اور اسلام آباد کے ڈی سی کو بتا دیا، جس روز انہوں نے ایم پی او جاری کیا اسی دن ڈی سی راولپنڈی نے ایم پی او واپس لیا تھا، لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں راولپنڈی کے ڈی سی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا تھی۔
’ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سفارش پر ایم پی او جاری کیے‘
وکیل راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیے کہ رپورٹس کے مطابق شہریار آفریدی جیل میں ہوتے ہوئے احتجاج کی منصوبہ بندی کررہے تھے، ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ پر ایم پی او آرڈرز جاری کیے گئے، کمیٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، ٹرپل ون بریگیڈ اور پولیس کے نمائندے شامل تھے۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ جس دن یہ سفارش ڈی سی اسلام آباد کو کی گئی تو کیا اس روز ڈی سی راولپنڈی کو بھی سفارش کی گئی تھی، کیا راولپنڈی کی کمیٹی میں ان اداروں کے نمائندے شامل نہیں تھے۔
وکیل رضوان عباسی بولے کہ بانی تحریک انصاف 9 مئی کو گرفتار ہوئے تو امن و امان کا مسئلہ بن گیا تھا، بانی تحریک انصاف کو توشہ خانہ میں سزا کے بعد گرفتار کیا گیا تو خدشہ تھا کہ امن و امان کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ بانی تحریک انصاف کی رہائی کے احکامات تو سپریم کورٹ نے جاری کیے تھے، جس پر وکیل رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ جی ہاں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا تھا کہ کیسے عدالتی احاطے سے گرفتاری ہوسکتی ہے۔
’انسانی غلطی کی ہر وقت گنجائش رہتی ہے‘
رضوان عباسی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انسانی غلطی کی ہر وقت گنجائش رہتی ہے، لیکن بدنیتی شامل نہیں تھی، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ 16 مئی 2023 کو پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم ہوا تھا، عدالتی آبزرویشن کے باوجود ایک ہی طرح کی سورس رپورٹ پر مزید ایم پی او آرڈرز جاری کیے گئے، ہم نے ان کے اختیارات معطل کیے تو پھر انہوں نے ایم پی او آرڈرز جاری کرنا بند کیے۔
جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ عدالت نے تو اپنے فیصلے میں یہاں تک لکھا کہ ڈی سی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جاسکتی ہے، صرف اس بینچ نے نہیں بلکہ دوسرے بینچز نے بھی تقریباً 40 ایم پی او آرڈرز کالعدم قرار دیے۔
ڈی سی اسلام آباد کی عدالت سے کیس خارج کرنے کی استدعا
اس موقع پر راجہ رضوان عباسی نے شہریار آفریدی کی حالیہ تقریر کا متن عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اب بھی جو زبان استعمال کی گئی اس میں بھی شہریار آفریدی دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ اس حالیہ تقریر کے بعد پھر کیا ہوا، کیا سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا گیا، کیا انہیں یہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ ڈی سی صاحب کو دعا دیتے کہ انہیں 80 دن جیل میں رکھا ؟
وکیل رضوان عباسی نے کہا کہ ڈی سی راولپنڈی کا یہاں پیش نہ ہونا انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا، ڈی سی کا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا کہ عدالت کی اتھارٹی کو نظرانداز کرتا۔ رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے توہین عدالت کا کیس خارج کرنے کی درخواست کی۔
ایس ایس پی آپریشنز کی غیر مشروط معافی کی استدعا
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کے وکیل شاہ خاور دلائل کے لیے آئے تو جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ایس ایس پی آپریشنز تو ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبر تھے، ان کے پاس براہ راست معلومات تھیں۔ انہوں نے ایس ایس پی آپریشنز سے استفسار کیا کہ جمیل صاحب کیا آپ نے ان افراد کے خلاف کوئی ایکشن لیا جنہیں شہریار آفریدی نے جیل میں بیٹھ کر اکسایا۔
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا فوکس تھا کہ لیڈر شپ کو احتجاج سے روکا جائے، کسی اور کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز سے کہا کہ اپنی تعیناتی کے بعد جو ایم پی او آرڈرز کی سفارشات انہوں نے بھیجی ہیں، وہ ڈیٹا دے دیں۔
ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ محرم کے دنوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ڈی سی صاحب کو ایم پی او آرڈرز کی سفارش کی جاتی ہے۔ جمیل ظفر کے وکیل نے شاہ خاور عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات میں ایس ایس پی کے حوالے سے کوئی آبزرویشن شامل نہیں۔ بعد ازاں، ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
آئندہ ہفتے کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا
ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن نے گزشتہ سماعت پر عدالت پیش نہ ہونے پر عدالت سے غیر مشروط معافی کی استدعا کی۔ عدالت نے ان کی غیر مشروط معافی کی درخواست مسترد کردی اور انہیں بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے دوسرے شوکاز کا پیر تک جواب جمع کروانے کا حکم جاری کیا۔ جسٹس بابر ستار نے ایرمارکس دیے کہ وہ آئندہ ہفتے کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی کو عدالتی احکامات کے خلاف گرفتار کرنے کے لیے دوبارہ ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف توہین عدالت کیس کی گزشتہ روز بھی سماعت کی تھی اور ڈی سی عرفان نواز میمن نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
جسٹس بابر ستار نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامے میں آئی جی اسلام آباد اور تمام صوبوں کے آئی جیز کو مل کر وارنٹ گرفتاری پر عمل کروانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی حکم دیا تھا کہ ایئرپورٹ، سی پورٹ یا بارڈر کراسنگ پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نظر آئیں تو انہیں گرفتار کرکے پیش کریں۔