پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت سازی کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی گرد بیٹھنے لگی ہے۔ آصف زرداری صدرِ مملکت ہوں گے جبکہ شہباز شریف وزیرِاعظم پاکستان۔
جس رفتار سے اپنی پارٹی کو ٹھکانے لگانے کی کوشش شہباز شریف نے بطور وزیرِاعظم نے کی، اگر یہ ناز، یہ انداز اور یہ رفتار برقرار رہی تو مسلم لیگ ن کو جو سانس آ جارہی وہ انہوں نے غصے سے ہی لینی چھوڑ دینی ہے۔
پی ڈی ایم ون کی محنت، حکمتِ عملی اور سیاستیں تھیں کہ نوازشریف اب پی ڈی ایم 2 سے باہر بیٹھے ہیں۔ بلاول بھٹو بھی وفاقی وزارتیں لینے سے انکار کرتے ہوئے جیالے لے کر سائیڈ پر بیٹھے رہیں گے، لیکن ساتھ ہی نہ شہباز حکومت کو گرنے دیں گے، نہ بھاگنے دیں گے، نہ مزہ لینے دیں گے اور نہ نام بنانے دیں گے۔
کام البتہ اس حکومت کو کرکے دکھانا ہے اور نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مہنگائی وہ جو یہ پہلے ہی کرچکے ہیں، اب شاید کوشش کریں تو بھی نہ کرسکیں۔ نہ آئی ایم ایف اگلے پروگرام میں اتنے مطالبات کرے گا۔
فاسٹ ٹریک نجکاری ایک مسئلہ ہے۔ اس سے گھبرائی ہوئی پیپلزپارٹی وفاق میں وزارتیں لینے سے گھبرا رہی ہے۔ جب خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ہوگی تو وہاں سے بیروزگار ہونے والے جیالے پی پی رہنماؤں کو جیوے بھٹو سنو رکو ذرا کہتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ رہے ہوں گے۔ اپنی دل سے دعا ہے کہ ایسے منحوس مواقع نہ ہی آئیں اور سب خیریت رہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مفرور رہنما تیزی سے منظرِ عام پر آنے لگے ہیں۔ ان کی ضمانتیں ہونے لگی ہیں۔ علی امین گنڈاپور وزیرِ اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ افسران ان کی زیارت کر آئے ہیں۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ پی ٹی آئی مرکز میں ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر اسمبلی میں آ رہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں حکومت بھی بنائے گی۔ کپتان نے بھی فتح مکہ، عام معافی وغیرہ کے بیانات دے کر اچانک سب کو حیران کردیا ہے۔
مجلس وحدت المسلمین کے حمید حسین نے کرم ایجنسی سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دی اور یوں پہلی بار اس پارٹی کو قومی اسمبلی میں نمائندگی مل گئی۔ علامہ راجہ ناصر عباس رضوی اس تنظیم کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ راجہ ناصر عباس ہارڈ کور جارحانہ مزاج رہنما ہیں۔ علامہ صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے ہم جماعت ہونے کے علاوہ اہم ایرانی قیادت کے بھی قریب ہیں۔ علامہ صاحب نے اعلان کیا کہ ہم پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں اور کپتان جیسے چاہیں ہماری تنظیم کو استعمال کرسکتے ہیں۔
بلے کے نشان سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کا حق بھی کھو چکی ہے۔ ایک طویل قانونی لڑائی مخصوص نشستوں کے لیے لڑنی ہوگی۔ ان نشستوں سے بھی زیادہ ضروری یہ تھا کہ پی ٹی آئی حمایت سے آزاد منتخب ہوئے ارکان کو کسی پارٹی ڈسپلن میں لایا جائے۔ پی ٹی آئی نے پہلے مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کردیا۔ اس نیم دلی سے کیے اتحاد کا سن کر بحیرہ عرب سے یورپ کو کراس کرتی ایک لہر امریکا تک گئی۔ کپتان نے اینٹی امریکا پوزیشن لے رکھی ہے۔ یہ سیدھا پیغام تھا۔
درمیان میں کیا ہوا، کون کس سے ملا۔ کپتان کو مؤکلوں نے آکر سمجھایا کہ پیارے ایسے نہ کر۔ المختصر پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کا اعلان کردیا۔ کپتان نہایت سنجیدگی سے یہ الزام لگاتا ہے کہ حسین حقانی نے 30 ہزار ڈالر لے کر پی ٹی آئی حکومت گرا دی۔
16 جولائی 2021 کو پاکستان سے ایک لابسٹ ہائر کیا گیا۔ اس نے سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار رابرٹ گرینیر اور حسین حقانی کی پاکستان کے حق میں لابنگ کے لیے خدمات حاصل کیں۔ حسین حقانی کو 30 ہزار ڈالر ادائیگی کی گئی۔ کپتان کہتا ہے یہ لمبی رقم پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کے لیے استعمال ہوئی۔ حسین حقانی کے انکار کی آپ نے بالکل پرواہ نہیں کرنی۔ جو کپتان کہتا ہے اسی پر ایمان لانا ہے۔ 30 ہزار ڈالر کی یہ خطیر رقم تھی جو پی ٹی آئی کے ووٹ میں تقسیم کی جائے تو4، 4 آنے بھی شاید نہ آئیں۔ پی ٹی آئی حکومت الٹا دی گئی۔
سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین شامل ہوئے ہیں۔ اس سنی اتحاد کونسل کو سنہ 2009 میں امریکا نے 36 ہزار 607 ڈالر دیے تھے۔ یہ ایک بار دی جانے والی گرانٹ تھی۔ اس گرانٹ کو لے کر سنی اتحاد کونسل نے کچھ جلسے کیے تھے۔ ان جلسوں کی نوعیت کی تفتیش آپ نے خود کرنی ہے۔
علامہ ناصر عباس سے امریکا کو ڈرا کر جس طرح حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے پی ٹی آئی کا اتحاد کرایا ہے۔ یہ کام پاکستانی مفاد میں صرف کپتان ہی کرسکتا ہے۔ کپتان کی 22 سالہ جدوجہد کے بعد جو حکومت قائم ہوئی وہ 30 ہزار ڈالر میں گری تھی۔ اب کپتان کو پیسے کی قدر معلوم ہوگئی ہے تو 36 ہزار 607 ڈالر پکڑنے والی پارٹی سے اتحاد کرلیا ہے۔ امریکیوں کی اب خوشی سے آواز تک نہیں نکلنی ہے۔
اتنا سا رولا تھا، سستی سی پی ٹی آئی ہے۔ حوالدار بشیر یہ 6 ہزار 700 ڈالر نہ بچاتا تو کپتان کب کا راضی ہوجاتا۔ آپ سب کا شکریہ جنہوں نے یہ تحریر بہت سنجیدگی سے پڑھی ہے۔ یہ ڈالروں والی کہانی گوگل کرکے پڑھیں۔