ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، چیف جسٹس

پیر 26 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔

مزید پڑھیں

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری کے ریفرنس کی سماعت کے دوران دیے۔ آج عدالتی معاونین خالد جاوید خان اور بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد عدالت نے ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالتی معاون خالد جاوید خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔

’جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے‘

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے، اگر کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنے طویل اور تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے کہ جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے، اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔

’بھٹو اچھے مسلمان نہیں تھے‘

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس آفتاب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اچھے مسلمان نہیں تھے، جس پر سپریم کورٹ نے بھی کہا اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔

چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالت نے یہ بھی کہا؟ کہاں لکھا ہوا ہے؟

خالد جاوید خان بولے کہ ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی اور نہ ہی اسے غلط کہا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی، جس پر خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے، جس میں ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔

’سپریم کورٹ کیسے اس فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے‘

جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی معاون سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے، اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباؤ ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جاسکتی ہے مگر طریقہ کار بتایا جائے، ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے۔

خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ مارشل لا دور میں ججز آزاد نہیں تھے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ عدالتی ریکارڈ پر موجود ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو کہ ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو ذولفقارعلی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بینچ نے کیس سنا، اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے۔

’جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، اس وقت کے حالات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9 رکنی بینچ نے کیس سنا، بعد میں 7 ججز رہ گئے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بینچ نے شروع کیا، پھر 6 رہ گئے تھے۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔ عدالتی معاون نے دلائل دیے کہ آج ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں، اس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے۔

خالد جاوید خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس وقت ملک میں بدترین مارشل لا تھا، اس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔

عدالتی معاون نے مزید کہا کہ میرے والدین کو بھی فوجی عدالتوں سے سزائیں دی گئیں، اس وقت ساز باز کرکے چیف جسٹس پاکستان بنے، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دباؤ تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ  ہم ایک مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس کو سن رہے ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں، کیا ہم ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیدیں، ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

’یہ کہنا کافی نہیں کہ مارشل لا نافذ تھا‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے، ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے، ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لا نافذ تھا، یہ کافی نہیں ہے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے عدالت کا بتایا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں، ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔

 عدالتی معاون نے نکتہ اٹھایا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں کہا گیا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہوئے تو دوسرے عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل شروع کیے اور کہا کہ عدالت گزشتہ فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ عدالت کیا آرٹیکل 186 (3) کے دائرہ اختیار میں یہ کر سکتی ہے۔

’سوال یہ ہے کہ فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں‘

بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ٹو جی ریفرنس میں رائے دی اور کہا کہ فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لا کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین بولے، میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2013 میں ججز کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت معاون سے سوال کیا کہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین بولے، یقیناً کچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں اور کون سے ختم کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے۔

’اس ریفرنس کے ذریعے اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا‘

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے کہ تشویش یہ ہے کہ اس کے بعد اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا، اس لیے انصاف کا خون ہوا۔ بیرسٹر صلاح الدین بولے، جی! میرا یہی موقف ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں انہوں نے لکھا کہ پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشتاق حسین اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ مجھے ملنے آئے اور ان دونوں نے مجھے اپیل میں بیٹھنے کا کہا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ اس وقت پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف تعصب کی درخواست سن رہے تھے، چیف جسٹس ہائیکورٹ خود فیصلہ دیکر سپریم کورٹ کے جج کو کہہ رہا ہے آپ اس کے خلاف اپیل سنو۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو چیف جسٹس ہائیکورٹ کا بہت نامناسب اقدام تھا، یہ تو نسیم حسن شاہ کے بطور ایڈہاک جج بیٹھنے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے۔

’جسٹس نسیم حسن شاہ پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا تعصب منکشف ہوچکا تھا‘

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا، جی، یہ معاملہ تب سامنے آجاتا تو لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ صرف اسی بنیاد پر کالعدم ہو جاتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اتفسار کیا کہ جب کتاب شائع ہوئی تو کیا جسٹس مشتاق زندہ تھے۔

بیرسٹر صلاح الدین بولے، شریف الدین پیرزادہ تو زندہ ہی تھے، اس ملاقات کے بعد نسیم حسن شاہ پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تعصب منکشف ہو چکا تھا، اس کے باوجود ان کے خلاف تعصب کی درخواست خارج کر دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جج کے سامنے 2 ہی سوال ہوتے ہیں کہ جرم ہوا یا نہیں، جج آپس میں بھی یہی طے کرتے ہیں کہ جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے سوال کیا کہ سزائے موت سے متعلق آپ کی رائے کیا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے کہ سزائے موت تب ہی دی جانی چاہیے جب تمام جج متفق ہوں، جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا ہم سے تو کسی نے نہیں کہا کہ یوں کرو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں۔

عدالتی معاون نے مزید کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے پھر کہا، ہو سکتا ہے کہ وہ ہم سے بھی ان ڈائریکٹ کہتے ہوں کہ یوں کر لیں تو بہتر ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ یہ ان ڈائریکٹ کہنا کیا ہوتا ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین بولے کہ میں تو جسٹس نسیم حسن شاہ کی باتوں کی نشاندہی کر رہا ہوں۔

’چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہوگئی تھی‘

بیرسٹر صلاح الدین نے نسیم حسن شاہ کے صحافی افتخار احمد کو دیے گیئ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوا کہا کہ انہوں نے اس انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہو گئی تھی، نسیم حسن شاہ نے کہا سزا کم ہو سکتی تھی مگر بھٹو کے وکیل نے ناراض کر دیا تھا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے سوال اٹھایا کہ کیا سزائے موت کے کیس میں جج کو وکیل کے طرز عمل پر سزا سنانی چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں دی جا سکتی۔

عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہونے کے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل ہم اس معاملے کے کریمنل پہلو پر سنیں گے۔

اس موقع پر اعتزاز احسن بھی بطور معاون عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ پہلے کیوں نہیں آ رہے تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی سوال کیا کہ آپ کی جانب سے کسی نے بیان دیا تھا کہ آپ پیش نہیں ہوں گے۔

سماعت کل تک ملتوی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، کسی کو اعتراض نہیں تو اعتزاز احسن کو سن لیں گے، کل عدالتی معاون منظور ملک کو سنیں گے۔

وکیل فاروق نائیک نے عدالت سے استدعا کی ’ کریمنل پہلو سے پہلے بلاول کی طرف سے مجھے سنا جائے، میں نے بلاول کی جانب سے فریق بننے کی درخواست کی تھی، میرا صدر مملکت سے تعلق نہیں ہے‘۔

بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ عدالتی معاونین خالد جاوید اور صلاح الدین نے دلائل مکمل کر لیے ہیں، ریفرنس پر مزید سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp