سوشل میڈیا، ایک دنیا سمجھنے کی نہ سمجھانے کی

پیر 13 مارچ 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جس کسی نے بھی انسان کو معاشرتی حیوان کہا ہے ، ٹھیک ہی کہا ہے کیوں کہ انسان تنہائی میں جیسا بھی شریف النفس ہو گروہ بندی کرتے ہی اس میں کچھ نہ کچھ حیوانی صفات ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔

جب تک ایک بچہ اکیلا ہوتا ہے، ماں باپ کا لاڈلا ، آنکھ کا تارا اور فرماں بردار ہوتا ہے جوں ہی ایک دو تین بہن بھائی عدم سے وجود میں آتے ہیں وہ سب مل کر دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو تیار رہتے ہیں، دن رات ماں باپ ریفری کا کردار ادا کرتے ہیں اور جب یہی بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر والدین کوان کی جنگ روک کر مذکرات کی میز پر لانے والے ثالث کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔

اصلی لڑائی جھگڑا پھر بھی ایک کم خطرناک صورت ِحال ہے کیوں کہ دنیا کو جلا کر راکھ کرنا ایک کم تباہ کن چیز ہے بہ نسبت کسی کے دل کی دنیا اجاڑنے کے۔ چند اجڑے ہوئے اداس دل کے لوگ ایک ایسا کلچر پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں جس کے بعد تعمیرِ نو کی کوئی گنجائش نہیں رہتی بلکہ اس مقصد کے لیے یہ آسمان و زمین پھونک ڈالنے پڑتے ہیں اور پھر ان کی خاکستر سے نیا جہان پیدا ہو تو ہو، غالب امکان یہی ہے کہ راکھ بھی اداسی اور پریشان خیالی کے باعث ادھر ادھر اڑ جائے۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز؛ انسان جہاں جاتا ہے اپنی طرح کے لوگ اپنے ارد گرد اکٹھے کر لیتا ہے، بھلے وہ ان سب اپنی طرح کے لوگوں کو ناپسند کرے یا ان کو برا جانے لیکن رہتا انہی کے ساتھ ہے۔ جو لوگ بھی ذرا مختلف ہوں رفتہ رفتہ وہ الگ ہو کر اپنے الگ گروہ میں چلے جاتے ہیں۔

جس طرح ہر ادارے کا اپنا کلچر ہوتا ہے اسی طرح ہر گروپ کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے، یہ بات گو کہ ازل سے ہی درست ہے لیکن اس پر مہِر تصدیق اب جا کر ثبت ہوئی جب سوشل میڈیا پر گروپس کا دور دورہ ہوا، یہاں ہم خیال گروہ بندی کی وہ کثرت ہے کہ چند لوگ کسی گروپ میں اکیلے بھی بیٹھے پائے گئے۔

سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کا مزاج الگ ہے۔ سب سے پہلے میری نظر واٹس ایپ کی طرف جاتی ہے یہ کوئی محاورہ نہیں بلکہ سچ مچ جب بھی میں فون دیکھتی ہوں چاہے گھڑی دیکھنے جیسا بےضرر کام ہی کیوں نہ ہو، انگلیاں سیدھے وٹس ایپ پر جاتی ہیں۔

پھر تو نئی سےنئی افتاد سے ذہن ایسا الجھتا ہے کہ وقت کا ہوش نہیں رہتا، اس چکر میں کئی بار ہانڈی جلی، چائے ابلی، نل کھلا رہ گیا، بھکاری دروازے پر منتظر رہا اور میاں گرم روٹی سامنے رکھے سالن کے انتظار میں وٹس ایپ دیکھتے رہے ، ہاں اگر یہ مسائل کی جڑ ہے تو حل بھی یہی ہے ورنہ میاں ہنگامہ نہ کھڑا کر دیتے۔

واٹس ایپ پر ابتدا میں فیملی گروپس بنے، یہیں سے بربادی کا آغاز ہوا۔ امی ابو نے وہی ناصحانہ انداز اختیار کیا جن سے بےزار ہو کر ہم فون میں پناہ لیتے ہیں لیکن سوشل میڈیا ہی وہ دنیا ہے جس کی خواہش اقبال نے کی تھی:

خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر

یہاں بجا طور پر جوان ہی استاد ہیں، وہ صبح دیر تک سونے اور اپنا کمرہ گندہ رکھنے کے حق میں تحقیقی پیغامات بھیج بھیج کر ماں باپ کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ماں باپ کو ان کی غلطیوں کا نقشہ گراف بنا کر سمجھایا جاتا ہے جس کا جواب حقیقی زندگی میں والدین اپنی چپل سے دیتے آئے ہیں لیکن خیر بچے جانتے ہیں کہ یہ کتنا مجرمانہ اور غیر انسانی رویہ ہے، ایسے والدین مہذب ملکوں میں ہوتے تو پولیس پکڑ کر لے جاتی یہ آزادیاں ان کو بس پاکستان میں نصیب ہیں، بعض بزرگ ایسے جدید خیالات کو زہر ِہلاہل سمجھتے ہیں کیوں کہ غلطی کو غلط مانے بغیر سدھار کیسے پیدا ہو سکتا ہے، جب کہ نوجوان بزرگوں کے ایسے خیالات کو ان کی فرصت اور فراغت کا سائیڈ افیکٹ گردانتے ہیں۔

واٹس ایپ پر ساتھ ہی دوستوں نے بھی گروپس بنا لیےتو یہ مزے دار معاملہ شروع ہوا، کسی انسان کے لیے سب سے اچھی جگہ یہی تھی، یہی وہ دنیا تھی جہاں داخلیت کے ماروں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا، کئی آدم بےزار لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا اور کسی حوا سے محبت ہوئی، یہیں کسی غریب ملک کے گھٹے ہوئے کلچر میں مغرب کی آزاد خیالیاں محسوس کرنے کا گوشہ ملا، اندازہ ہوا کہ دشمن کے بچوں کو عشق کا سبق پڑھانے سے دنیا کتنی حسین ہو جاتی ہے اور انسان کا سب سے خوب صورت اور دلچسپ روپ نظر آتا ہے۔

اگر فارورڈڈ میسجیز کی وبا نہ پھوٹ پڑتی تو یہ دنیا ادب کے بھی کئی نمونے پیدا کر دیتی۔ اس رنگین دنیا کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے سکرین شاٹ کی تیزابی انٹری ہوئی، سکرین شاٹ کا اصول یہ ہے کہ رازداں اپنے دوست کی گفتگو پڑھ کر اسی کے خلاف ہو جاتا ہے اور بارہا داخلیت پسند آمادہ شاعری دوست کی چیٹ سے متاثر ہو کر “بن گیا رقیب آخر ، تھا جو رازداں اپنا” پھر تو دنیا نے دیکھا کہ سوشل میڈیا سے قتل بھی ہوئے اور کئی قاتلوں کا سراغ بھی ملا۔

پرانے وقتوں میں کچھ لوگ جو کہتے تھے کہ کتابوں کی دنیا اور حقیقت کی دنیا میں فرق ہے، اب انھیں نیا جملہ تکیہ کرنے کو مل گیا، اب وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی میں فرق ہے۔ جس کو وہ یوں سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو مرضی کرو اس سے حقیقی دنیا پر فرق نہیں پڑتا۔

ایسی مبنی بر دروغ بات وہی کہہ سکتے ہیں، دنیا ایسا نہیں سمجھتی۔ ایک آدمی نے اپنے کسی شناسا کو فیس بک سے ان فرینڈ کیا تو اس نے سچ مچ کی دنیا میں اس کو گولی مار دی۔ فیس بک پر لاٹری نکلنے کے بعد تصویر لگا کر خدا کا شکر ادا کیا تو رات ڈاکوؤں نے سب لوٹ لیا اور صبح فیس بک پر اس کا شکریہ ادا کیا۔

ایک امیر کبیر فیملی جو ٹیکس چور بھی تھی، ان کے بچوں نے عیاشی پر خوشی منائی تو حکومت نے ان سے اثاثوں کی تفصیلات مانگ لیں۔ کئی لوگوں کو فیس بک پر جیون ساتھی ملے اور بہت سے لوگوں کے جیون سے ساتھی نکل بھی گئے۔

فیس بک یا کوئی بھی سوشل میڈیا ہم انسانوں سے ہی مل کر بنا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہاں اخلاقیات کا پیمانہ ذرا الگ ہے مثلا جس طرح فیس بک یا انسٹا گرام پر آپ کسی اجنبی خاتون کی تصویر پر اس کے حسن کی داد دے سکتے ہیں ایسے روبرو کہہ کر سلامت نہیں رہ سکتے۔

سوشل میڈیا پر قوت ِبرداشت بھی تھوڑی ہوتی ہے، ایک ایک جملے ، لفظ اور ایموجی سے وہ جنگ شروع ہوجاتی ہے جو عشروں تک جاری رہتی ہے۔ لاپرواہ نظر آنے والے لوگ بھی بلاک ہونے پر تلملاتے ہیں، ایڈ نہ کرنے پر برا مانتے ہیں اور پوسٹ پر رسپانس نہ کرنے پر بھی خفا ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی کچھ اصطلاحات سے غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر فیس بک پر جب ہم اپنا سوشل دائرہ وسیع کرتے ہیں تو ایڈ ہونے والے لوگوں کو “فرینڈ “کہا جاتا ہے حالاں کہ وہ اس اصطلاح کی صحیح تعریف پر پورے نہیں اتر سکتے۔ چناں چہ وہ دوستوں کی طرح ہی ہماری زندگی میں مداخلت شروع کر دیتے ہیں، روک ٹوک کرنے لگتے ہیں، اپنی پوسٹوں پر کیا رائے دینی ہے یہ بھی ڈکٹیٹ کرنے لگتے ہیں۔
کئی ایسے شعرا ہیں جو اپنی شاعری پر خود تنقید کر کے اپنے دوست کو کہتے ہیں کہ یہ ادھر پیسٹ کر دو تا کہ فلاں فلاں کو جلن ہو۔

یہ وہ دنیا ہے جس پر ہمارے اصل دوست خاموش تماشائی کی طرح ہماری بربادی کا نظارہ کرتے ہیں، ہماری کامیابی پر سٹکر بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جب کہ ہمارے دشمنوں کی باتوں پر ان کی خوش طبعی سے ہمارا پتا پانی ہوتا رہتا ہے۔ جلد یہ اصلی دوست اصلی دنیا کے اجنبی بن جاتے ہیں۔ کسی اصل زندگی کے دوست کو جب ہم اجنبی لوگوں کی بےتکی پوسٹ پر بھنگڑے ڈالتے اور ہماری ذہانت سے بھرپور تحریر کو نظرانداز کرتے دیکھتے ہیں تو واقعی دل میں درد ہوتا ہے۔

ثابت ہوا سکون ِدل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی جون ایلیا

مقام ِ شکر ہے کہ اب ٹی وی کی وبا دم توڑ رہی ہے لیکن پھر بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو گھڑے ہوئے بیانیے سے جذباتی ہو کر سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں اور یہاں لاعلمی کی نعمت سے محظوظ ہوتے ہوئے چند افلاطونوں کی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کردیتے ہیں۔

اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے بعض نیٹ ورکس پچھلے سالوں کی یاداشتیں ہر روز صبح کے سلام کی طرح سامنے رکھ دیتے ہیں، اس ماضی کے آئینے میں اپنا بھیانک چہرہ دیکھ کر برا سا دن طلوع ہوتا ہے، سارے اعتماد کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے لیکن ہمیں ڈوبنے کو چلو بھر پانی بھی نہیں ملتا، سارا دن دفتر میں خود سے منہ چھپا کر سوشل میڈیا میں پناہ لیتے ہیں اور اپنی دانست میں عقل کی ایسی بات لکھتے ہیں جو شاید اگلے دس سال تک ہمارا خون جلا دے گی۔

ہاں کہیں کہیں اگر دوستوں عزیزوں کی تصویریں ماضی سے جھانکتی نظر آئیں تو وہ ایک قیمتی سرمایہ ہوگا ، بچے بڑے ہو چکے ہوں گے اور بڑے نکھر گئے ہوں گے، ان یادوں پر وقت کی گرد نہیں جمتی بلکہ وقت ان کے رنگوں کو آب دے دیتا ہے، ان کی اہمیت میں اور اضافہ کر دیتا ہے گویا یہ ہماری یادوں کے خزانے میں نوادرات ہیں۔

سوشل میڈیا پر اگر ہم ہمت کر کے کوئی بات کہہ ہی دیں تو وہ کسی بلا کی طرح ہمارا پیچھا کرتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ دنیا میں انسانوں کے خیالات کی رو کا اندازہ لگائیں کہ وہ کس حد تک بہک سکتی ہے:

مثال کے طور پر کار اور سائیکل کے ٹکراؤ کی خبر میں کچھ لوگ سائیکل کا ساتھ دیتے ہیں، کچھ کار کا۔ کچھ ماحولیات کے متوالے آب و ہوا کی متوقع آلودگی پر تشویش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسی خبر منظرعام پر لانے کو ہی جرم سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک اس سے حادثوں کے رحجان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اس خبرکو کار والے کی طرف سے دولت کی نمائش خیال کرتے ہیں اور اس بھونڈے طریقے پر برا مانتے ہوئے روس تک جا پہنچتے ہیں۔

ان کی رائےسے متاثر ہونے والے کمزور ذہنی طاقت کے لوگ اس کو سائیکل والے کی غربت کا مذاق سمجھ کر آپ کو گالیاں دینے لگتے ہیں، چند لوگ جو عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ واقعہ صریحاً سڑک کے ساتھ زیادتی کا باعث بنا ہے جس پر سنگ دل دنیا آواز نہیں اٹھا رہی کیوں کہ معاشرہ کسی گھناؤنی سازش کا شکار ہے۔

جس طرح اچھا کھانا کھانا عیاشی اور ایسا کھانا پکانا مزدوری ہے اسی طرح وہ لوگ ہمدردی کے مستحق ہیں جو سوشل میڈیا پر دفتر کا کام کرتے ہیں۔

ایسی ایک سہیلی نے سب کو کال کرنے سے منع کر رکھا تھا کیوں کہ وہ دن رات، صبح شام زوم وڈیو میٹینگ پر کلاس کو پڑھانے میں مشغول ہوا کرتی تھیں۔ پھر واٹس ایپ چیٹ میں اپنے طلبہ سے اپنا ہی دیا ہوا لیکچر سمجھتی، ان سے نصاب کی تفصیل طلب کرتیں یا مجوزہ کتب ڈھونڈا کرتیں۔

ان کے بقول وہ ساتھ ساتھ موبائل پر یوٹیوب چلا کر زوم ایپ استعمال کرنے کے طریقے، زوم پر لیکچر ریکارڈ اور ایڈٹ کرنے کے طریقے، طلبہ کو کیسے بور نہ کیا جائے، زوم وڈیو پر بہتر نظر آنے کے لیے میک اپ کے طریقے، گھر کی بے ترتیبی کو چھپانے کے ہزار طریقے، بال بنائے بغیر اچھا لگنے کی خفیہ ترکیبیں، ورچوئل بیک گراؤنڈ فار وڈیو کال وغیرہ بھی سیکھتی رہا کرتی تھیں، گھر بیٹھ کر تنخواہ لینا بھی کوئی آسان ہے؟

اب نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔ 2020 کے بعد اندھا دھند میسیج فارورڈ کرنے والوں کو قید ِبا مشقت ہونی چاہیے۔ اچانک غیر متوقع کال کرنا دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہونا چاہیے۔

ہمیں کال کر کے صرف اپنی کہے جانے والوں پر فی لفظ کے حساب سے جرمانہ لگایا جائے۔ غیر متعلق خبر بغیر تصدیق کے بھیجنے والوں کی ڈگریاں جعلی قرار دی جانی چاہیں، وہ فن کار جو نہ صرف ایسے فن کا نمونہ بھیجتے ہیں جس کا ہمیں کوئی ذوق نہیں بلکہ اس پر ہماری ماہرانہ نقادانہ رائے یعنی صرف تعریفی مقالہ چاہتے ہیں ان کو تو بلا تکلف حوالات کی ہوا کھلائی جانی چاہیے۔

وہ لوگ جو ملاقات کی دعوت دے کر خود فون میں گھس جائیں ان کا فون ان لاک کر کے ان کے نصف بہتر کے حوالے کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جو ایک تصویر دیکھنے کے لیے ہمارا فون لیں اور اردگرد کی تصاویر کو بھی دیکھتے چلے جائیں ان کی بنا فلٹر تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر ان کے محبوبوں کو ٹیگ کیا جائے۔

سنا ہے جنگوں کی جنریشن میں اب پانچویں نسل پیدا ہوگئی ہے۔ غیر مصدقہ سوشل میڈیائی اطلاعات کے مطابق یہ جنگیں ایسے ہی گروپوں اور سوشل میڈیا پر لڑی جائیں گی۔ کل ہی اس سلسلے میں دو جنگیں ہوئیں جن میں ایک لاہور کے افسانہ نگاروں کی سیروسیاحت کے منصوبوں والے واٹس ایپ گروپ میں ہوئی۔ میں بھی اس میں شامل تھی گو کہ میں افسانہ نہیں لکھتی لیکن ان کے افسانے صرف میں پڑھتی ہوں اس لیے انھوں نے مجھے حبس ِ بےجا میں رکھا ہوا ہے۔

لڑائی کی اصل وجہ بعض اردو کے الفاظ کی تذکیر وتانیث تھی۔ ایک جماعت کا کہنا تھا کہ ہمیں مقامی اور پنجابی اصولوں کو ہی برقرار رکھنا ہوگا جب کہ پڑھے لکھے مروجہ اصول کے قائل تھے، لیکن ان کو مناسب دلیل نہیں مل رہی تھی اس لیے گروپ نے اتفاق رائے سے منطقی بحث کو بھاری دلیلوں کے بل پر منظور کرنے میں ہی عافیت جانی۔ شکست خوردہ گروپ نے الگ سے ایک اور وٹس ایپ گروپ بنا کر ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم تیز کرنے کا منصوبہ بنایا اور مجھے بھی اس میں شامل کر لیا۔ جیتنے والوں نے ان سب کی بد خوئی کے لیے جو الگ گروپ بنایا اس میں بھی مجھے شامل کرنا ضروری سمجھا، خدا کسی گروپ میں کسی شریف انسان کو نیوٹرل پوزیشن سے بچائے۔

دوسری جنگ فیس بک پر ہوئی جس میں ایک خاتون اپنے انباکس میں سے شرفا کے پیغامات سکرین شاٹ بنا بنا کر شئیر کر رہی تھیں۔ بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ ایسی پست کردار خواتین کو لوگ اس طرح کے پیغام نہ بھیجیں تو اور کیا کریں اور رفتہ رفتہ سب نے مل کر اس خاتون کی ایسی شدید مذمت کی کہ وہ گروپ چھوڑ کر بھاگ گئیں۔

وقتا “فوقتا” سوشل میڈیا میں تاک جھانک کرنے کے بعد آج میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اصل خوشی چاہیے تو اہل مغرب کی طرح بلیاں اور کتے ہی پال لینے چاہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp