سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت پیر 4 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پیر کو سماعت مکمل ہوجائے گی۔
کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے صرف ان سوالات کا جواب دینا ہے جو صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے۔
’گواہ کے لیے سمجھدار آدمی ہونا ضروری ہے‘
منظور ملک نے آج اپنے دلائل میں کہا کہ مسعود محمود کا بیان وعدہ معاف گواہ کے بیان کی نفی کرتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا میاں محمد عباس گواہی کے کٹہرے میں آئے۔
عدالتی معاون منظور احمد ملک نے عدالت کو بتایا کہ میاں محمد عباس کبھی گواہی کے کٹہرے میں نہیں آئے، کل میں گواہ مسعود محمود پر جرح کی بات کر رہا تھا، اس دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے اہم سوال اٹھایا، ایک گواہ نے کہا ڈی جی ایف ایس ایف (فیڈرل سیکیورٹی فورس) سے احمد رضا قصوری کو صاف کرنے کی ہدایت ملی، یہ بیان کیس کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کو رد کر رہا تھا، وعدہ معاف گواہ نے کہہ رکھا تھا قتل کی ہدایات وزیراعظم سے ملیں۔
منظور ملک نے مزید بتایا کہ دوسرے گواہ کا بیان چونکہ وعدہ معاف گواہ کے خلاف تھا اس لیے اسے نظر انداز کر دیا گیا، سوال تھا کہ کیا گواہ میاں غلام عباس کا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ہوا، اس سوال کا جواب ہاں میں ہے مگر 342 کے بیان میں انہوں نے کہا وہ رضاکارانہ بیان نہیں تھا، وہ بیان دیکھ لیتے ہیں وہ تھا کیا۔
عدالتی معاون نے دلائل دیے کہ 164 کے تحت محض بیان ریکارڈ کرانے سے کوئی گواہ نہیں بن جاتا، جب تک اسے معافی نہ دی جائے اس کا 164 کا بیان صرف اعتراف جرم ہو گا، گواہ کے لیے سمجھدار آدمی ہونا ضروری ہے۔
’سپریم کورٹ کا رجسٹرار چیف جسٹس سے ایسی بات کرسکتا ہے؟‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سمجھدار کا لفظ صرف آدمی کے لیے استعمال نہ کریں۔ منظور ملک بولے، ہمارے معاشرے میں خواتین سے زیادہ سمجھدار کوئی نہیں ہوتا، خواتین شوہر اور سسرال سمیت کئی چیزیں ایک ساتھ سنبھالتی ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالتی معاون کو مخاطب کیا اور کہا، ’ملک صاحب ٹی وی پر عدالتی کارروائی چل رہی ہے، گھر میں بھی یہ دیکھا جا رہا ہوگا۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں سمجھدار آدمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔
منظور ملک نے دلائل دیے کہ ایک گواہ نے کہا اس نے بھٹو صاحب سے کہا ہم سب کو خدا نے انجام تک پہنچانا ہے، گواہ نے کہا میں نے بھٹو صاحب سے کہا میں مزید ایسے احکامات کی بجا آوری نہیں کروں گا، کیا ایک آفیسر وزیراعظم کے سامنے ایسی بات کر سکتا ہے، کیا اس سپریم کورٹ کا رجسٹرار چیف جسٹس کے سامنے ایسی باتیں کہنے کی جرأت کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’میں آپ سے متفق نہیں ہوں، میں تو کئی چیزوں پر رجسٹرار کی اختلاف پر حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا‘
منظور ملک بولے، میں نے آپ کی تو بات ہی نہیں کی، آپ خود پر نہ لیں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہان کے بیانات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، گواہ نے دعویٰ کیا کہ اس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان غیرمتزلزل ہے، اتنا بڑا دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہو، ذوالفقار علی بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ تاریخ درست کرنی ہے یا نہیں۔
عدالتی معاون نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرے کہ تکنیکی معاملے پر جانا ہے یا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا ہے، بھٹو کی پھانسی کے سیاسی اثرات بھی ہیں ان پر بات نہیں کروں گا، اندرون سندھ کے لوگ آج بھی بھٹو کی پھانسی کو نہیں بھول سکے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ محمود محسود کی معافی کا حکم نامہ کہاں ہے، وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا تعلق بھی قصور سے ہے، کیا قتل کا حکم دینے والے کو مسعود محمود اور مدعی مقدمہ کے تعلق کا علم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے مزید سوالات پوچھے کہ کیا سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ نے اس پہلو کا جائزہ لیا تھا، یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنی یا مخالفت اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے، کیا اس پہلو کی تحقیقات کی گئیں کہ قتل کا حکم کسی اور نے دیا اور نام وزیراعظم کا لگا دیا گیا، گواہ کا ضمیر 3 سال بعد ہی کیوں جاگا۔
عدالتی معاون نے چیف جسٹس کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں بہت زیادہ دستاویزات ہیں، اتنی کہ پڑھنا ممکن نہیں، یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ اتنی دستاویزات لگا دو کہ کوئی پڑھے ہی نہ۔
’منظور ملک عدالتی معاون کم، وکیل صفائی زیادہ لگ رہے تھے‘
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کے دلائل مکمل ہوئے تو عدالت نے اٹارنی جنرل سے گواہ مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب کر لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاون جسٹس (ر) منظور ملک سے کہا کہ کوشش کریں دلائل مختصر کریں، جسٹس سردار طارق کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ منظور ملک بولے کہ آپ بینچ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی دس بارہ سال یہ مقدمہ نہیں چلایا گیا
اس موقع پر احمد رضا قصوری بولے، ’جتنی تفصیل سے منظور ملک نے دلائل دیے وہ عدالتی معاون کم اور وکیل صفائی زیادہ لگ رہے تھے، کیا عدالت نے ریفرنس قابل سماعت قرار دے دیا ہے جو اتنی تفصیلات میں جا رہی ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس کو حصوں میں تقسیم نہیں کریں گے، سب کو سن کر ایک ہی مرتبہ فیصلہ کریں گے۔
’ایک مرتبہ عدالت نے دروازہ کھولا تو مقدمات کا سیلاب آجائے گا‘
بعد ازاں، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیٸر کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے مارشل لا کے دوران اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ یہ تو عمومی بیان ہے، کیا اس کا اطلاق ان کے تمام فیصلوں پر ہوگا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی ریمارکس دیے کہ کیا ہم مارشل لا دور میں ہونے والے تمام کیسز دوبارہ کھولیں گے، ولی خان سمیت بہت سے مقدمات اس وقت سپریم کورٹ تک آتے رہے ہیں، اس طرح تو سب کیسز ہی کھولنا پڑیں گے، ایک مرتبہ عدالت نے دروازہ کھول دیا تو مقدمات کا سیلاب آ جائے گا۔
زاہد ابراہیم نے دلائل دیے کہ خدشات کا اظہار کیا گیا کہ ریفرنس پر فیصلے سے مقدمات کے حتمی ہونے کا اصول متاثر ہوگا، فیصلوں کا حتمی ہونا اچھی بات ہے لیکن انصاف ہونا زیادہ ضروری ہے۔
’ نسیم حسن نے کہا مولوی مشتاق اور ضیا کے آپس میں تعلقات تھے‘
بلاول بھٹو کے وکیل فاروق نائیک دلائل کے لیے آئے اور جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کے انٹرویوز عدالت میں پیش کیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ انٹرویوز کے ٹرانسکرپٹ کا متعلقہ حصہ بتا دیں اس کا جائزہ لے لیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ دباؤ میں کیا گیا تھا، اس انٹرویو میں ایسا کوئی جملہ نہیں ہے، باقی انٹرویوز کا بھی جائزہ لیں پھر صورتحال واضح ہوگی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ٹرانسکرپٹ سے متعلقہ حصہ پڑھ کر سنا دیں۔
فاروق نائیک نے جسٹس نسیم حسن شاہ کا بیان پڑھا:
نسیم حسن شاہ نے کہا، ’فوج آئے تو کہتی ہے عدالت ہمارے معاملے میں دخل اندازی نہیں کر سکتی، نسیم حسین شاہ نے کہا مارشل لا میں عدلیہ جرنیلوں کے ماتحت ہوتی ہے، بھٹو کیس میں کسی نے کہا کہ یہ فیصلہ کرو، ہوسکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں یا کچھ ہم سے کہتے ہوں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے جو کہا اس کا سزا سے تعلق نہیں ہے۔ جس پر فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ نسیم حسن شاہ نے کہا مناسب ہوگا مولوی مشتاق بھٹو کیس نہ سنتے، نسیم حسن نے کہا مولوی مشتاق اور ضیا کے آپس میں تعلقات تھے، نسیم حسن شاہ نے کہا جج کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کے لیے ٹھوس مواد ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو غیرمتعلقہ باتیں ہیں، وہ حصہ دکھائیں جہاں نسیم حسین شاہ نے دباؤ میں فیصلے کا اعتراف کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے صرف ان سوالات کا جواب دینا ہے جو صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فاروق نائیک سے کہا کہ ریفرنس میں کونسا قانونی سوال ہے پہلے یہ واضح کریں، صدارتی ریفرنس میں صرف قانونی سوالات ہی پوچھے جا سکتے ہیں۔
’بابر اعوان کہاں غائب ہوگئے‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جب یہ ریفرنس بھیجا گیا اس وقت وزیر قانون کون تھا، بابر اعوان صاحب کہاں ہیں، وہ غائب ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ نئے سوالات دوران سماعت سامنے آئے ہیں، کیا تفتیش بند ہو کر دوبارہ کھولی جا سکتی تھی یا نہیں، کیا ہائیکورٹ یہ ٹرائل سیدھا منتقل ہو سکتا تھا یا نہیں، یہ وہ سوالات ہیں جنہیں دیکھنا ہے۔
فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ مارشل لا لگنے کے بعد بنیادی حقوق معطل ہو گئے تھے، ججوں کا حلف بھی تبدیل کر دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ باتیں ہم جانتے ہیں کچھ الگ بتائیں۔ بعد ازاں، فاروق نائیک کے دلائل مکمل ہوگئے۔
چیف جسٹس نے رضا ربانی سے پوچھا کہ آپ کس کی نمائندگی کریں گے، جس پر رضا ربانی نے بتایا کہ وہ صنم بھٹو کی نمائندگی کریں گے۔
عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں اسلامی پہلو والے سوال پر جواب نہیں دوں گا، اس سوال سے تو میں ڈرتا ہوں، میں اسلامی پہلو سے جواب دے دوں کسی کو پسند نہ آئے، میں تو مارا گیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج ہی سماعت مکمل کریں گے۔
وقفے کے بعد جسٹس جمال مندوخی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ یہ قرار نہیں دے سکتی کہ بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا۔
جج نے کہا کہ بلوچستان میں جرگہ سسٹم تھا غلط فیصلے ہوتے تھے کیا ان کو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا۔
عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر جواب دینے کی پابند ہے، لازمی نہیں کہ یہ کہا جائے کہ فیصلہ درست ہے یا غلط ہیاں نو کمنٹس بھی لکھا جاسکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے، ٹرائل کورٹ سے ایف آئی اے کو کیسے کیس منتقل ہوگیا اور بھٹو کیس کا بند ٹرائل دوبارہ کیسے کھولا گیا یہ بھی دیکھنا ہوگا۔
عدالت فیصلہ دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس فیصلہ درست تھا یا غلط، اعتزاز احسن
اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ درست نہیں تھا اور سپریم کورٹ دیگر معاملات میں نہ پڑے بس یہ کہہ دے کہ فیصلہ درست تھا یا نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سنہ 1992 تک بلوچستان میں جرگہ نظام تھا اور اگر س نہ 1992 تک کے بلوچستان میں جرگہ نظام کے تحت کیے گئے فیصلوں کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ آگیا تو کیا ہم انہیں بھی سننا شروع کر دیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ صدارتی ریفرنس پر ہم اس معاملے کو دیکھ سکتے ہیں یا نہیں، ریفرنس میں غلط ٹرائل کا سوال پوچھا گیا تو سپریم کورٹ کو تو پورے ٹرائل اور مواد دیکھنا پڑے گا۔
’اعتزاز صاحب سیاسی باتیں چھوڑیں، باہر تو آپ تقریریں کرتے ہیں کہ 20 سیکنڈ میں کیس سمجھا سکتا ہوں‘، چیف جسٹس
اعتزاز احسن ضیا نے کہا کہ اس دور میں پیپلزپارٹی کے ساتھ جو کیا گیا وہ بھی دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اس وقت مارشل لا تھا لوگوں کو بے گناہ جیل میں ڈالا گیا، ہمیں پتا ہے ہماری تاریخ اچھی نہیں، آئین میں زبردستی ترامیم کی گئیں۔
اعتزاز احسن کی ان باتوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’اعتزاز صاحب آپ سیاسی باتیں نہ کریں‘۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہتے صرف صدارتی ریفرنس تک محدود رہیں ار آپ اپنے پرانے معاملات کو اس کیس کے ساتھ نہ جوڑیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ آپ تو باہر تقریر کرتے ہیں کہ 30 سیکنڈ میں کیس سمجھا سکتا ہوں۔ اس پر اعتزاز احسنن نے کہا کہ عدالت مجھے سنے گی تو 30 سیکنڈ میں بات ختم کر دوں گا۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست نے رحم کی اپیل کی تھی۔ اس پر چیف جسٹس جب ذوالفقار بھٹو نے ہی رحم کی اپیل نہیں کی آپ دوسروں کو چھوڑ دیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ بھٹو کیس میں رحم کی اپیل تو دائر ہوئی ہی نہیں تھی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست غلامی جیلانی نے رحم کی اپیل دائر کی تھی اور ہمارا مؤقف تھا کہ جب آئینی صدر آئے تو وہ فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رحم کی اپیل دائر کرنے کا مطلب غلطی تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بھٹو نے خود رحم کی اپیل دائر ہی نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ کیوں یہ پڑھ رہے ہیں۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ، لاہور ہائیکورٹ اور راولپنڈی میں اس وقت ادارہ جاتی تعصب تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 3 ججز نے اختلاف کیا، آپ ادارہ جاتی تعصب نہیں قرار دے سکتے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے 2 ججز نے تو ضمانت دی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر نے ادارہ جاتی تعصب کی بات نہیں کی، ہم ادارہ جاتی تعصب کی دلیل کی طرف نہیں جائیں گے۔
اعتزاز احسن کا سنہ 1993 کے نواز شریف کیس کا حوالہ
اعتزاز احسن کی جانب سے سنہ 1993 کے نواز شریف کیس کا حوالہ دیے جانے پر چیف جسٹس نے کاہ کہ ہم سنہ 1974 کی بات کر رہے ہیں، آپ 1993 کے فیصلے کی مثال دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رضا ربانی ہماری مدد کے لیے آئیں۔ پھر چیف جسٹس نے رضا ربانی سے پوچھا کہ کیا آپ اعتزاز احسن کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں اور کیا آپ مانتے ہیں کہ بھٹو نے رحم کی اپیل دائر کی تھی۔
رضا ربانی نے کہا کہ رحم کی اپیل بھٹو نے دائر نہیں کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعتزاز احسن کے دلائل سے اتفاق کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ’آپ مجھے کونے میں لگانا چاہتے ہیں‘۔
اعتزاز احسن کا غیر ملکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ
اعتزاز احسن نے کہا کہ کینیڈا میں عدالت نے درخواست گزار کی وفات کے بعد کیس کو دوبارہ کھول کر سنا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کینیڈا کی عدالت نے پرانا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور اپیل مسترد کی تھی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کیس اس وقت کی بہت بڑی ضرورت اور چیلنج ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوامی اہمیت کے حوالے سے کچھ بات کروں گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’اعتزاز صاحب آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ عدالت عوامی اہمیت کا پہلو نہ دیکھے‘۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بدنیتی سے متعلق پہلو کا تحریری جواب دے دیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ مارشل لا دور میں پوری عدلیہ آرمی چیف کے کنٹرول میں تھی جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں سپریم کورٹ کے 3 ججز نے بھٹو کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن صاحب کب تک دلائل ختم کریں گے میں رات کا کھانا جلدی کھاتا ہوں۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اعتزاز احسن سے کہا کہ یا تو کھانے کے بعد دوبارہ آپ کو سن لیتے ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ میں جلدی اپنی دلائل ختم کرتا ہوں، میں نے یہ نہیں کہا کہ ذوالفقار بھٹو نے رحم کی اپیل کی تھی۔ یہ کہہ کر عدالتی معاون اعتزاز احسن نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ باقی وکلا کو پیر کو سن لیں گے۔
عدالت نے بتایا کہ عدالتی معاون منظور ملک، اعتزاز احسن اور فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کیے جبکہ فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے وکیل زاہد ابراہیم نے بھی دلائل مکمل کیے۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت پیر 4 مارچ تک ملتوی کردی گئی ۔ چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پیر کو کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی۔