جنوبی کوریا کی خواتین بچے پیدا کرنے سے کتراتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا میں شرح پیدائش دنیا میں سب سے کم ہے، اور یہ مسلسل گرتی ہی جا رہی ہے، ہر نئے آنے والے سال میں جنوبی کوریا اپنے ہی حیرت انگیز طور پر کم ریکارڈ کو مات دے رہا ہے۔
رواں سال جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں جنوبی کوریا میں یہ شرح مزید 8 فیصد گر کر 0.72 پر آگئی ہے۔ لیکن آبادی کے تناسب سے اس کو مستحکم رکھنے کے لیے اس کی تعداد 2.1 ہونی چاہیے۔ تاہم اگر یہی رجحان رہا تو آنے والے 50 سالوں میں جنوبی کوریا کی آبادی موجودہ آبادی کا نصف رہ جائے گی۔
مزید پڑھیں
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش میں کمی دیکھی جا رہی ہے، لیکن جنوبی کوریا میں شرح باقی تمام ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ آئندہ 50 سالوں کے دوران کام کرنے والے افراد کی عمر کے لوگوں کی تعداد آدھی رہ جائے گی، ملک کی لازمی فوجی خدمات میں حصہ لینے کے اہل افراد کی تعداد 58 فیصد تک سکڑ جائے گی، اور تقریباً نصف آبادی 65 سال سے زیادہ ہوگی۔
’آبادی میں کمی کے تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے جنوبی کوریا کی انتظامیہ اور سیاست دانوں نے ملک کی معیشت، اور سلامتی کے لیے اسے قومی ایمرجنسی قرار دے دیا ہے‘۔
اس دوران تقریباً 20 سالوں سے یکے بعد دیگرے مختلف حکومتوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت مالی وسائل کا استعمال کیا ہے، اور اربوں کھربوں ڈالرز خرچ کر دیے ہیں لیکن پھر بھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔ اس تناظر میں جنوبی کوریا کی حکومت نے ان شادی شدہ جوڑوں کو جن کے بچے ہیں ان کو ماہانہ خرچ کے لیے نقدی اور سبسڈی کی مد میں مکانات، ٹیکسوں میں چھوٹ، مفت علاج بھی دے رکھا ہے، لیکن اس طرح کی مالی ترغیبات بھی لوگوں میں بچے پیدا کرنے کی خواہش پیدا نہیں کرسکی۔
تاہم سیاست دان مزید سہولیات دینے کے لیے غور و فکر کررہے ہیں، جیسے کہ جنوب مشرقی ایشیا سے آیاؤں کی خدمات حاصل کرنا اور انہیں کم سے کم اجرت سے کم اجرت دینا، اور اگر مردوں کے 30 سال کی عمر سے پہلے 3 بچے ہوں تو انہیں فوجی سروس میں خدمات انجام دینے سے مستثنیٰ قرار دینا شامل ہے۔
اس سلسلے میں تحقیاقی اداروں نے پچھلے ایک سال کے دوران ملک بھر کا سفر کیا اور خواتین سے بات کی تاکہ ان کے بچے پیدا نہ کرنے کے فیصلے کی وجوہات کو سمجھا جا سکے۔ تو یہ بات سامنے آئی کہ جنوبی کوریا میں ان خواتین کو تلاش کرنا مشکل ہے جو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں یکساں طور پر شریک ہوں، کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ اگر آپ صرف گھریلو خاتون نہیں ہیں تو آپ بچوں کی پرورش ٹھیک سے نہیں کر سکتی ہیں۔
2022 میں بھی ایک سروے کیا گیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنوبی کوریا میں صرف 2 فیصد بچوں کی پیدائش شادی کے بغیر ہوئیں۔ محققین کے مطابق جنوبی کوریا کی خواتین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے لیے اہم کیا ہے، آپ کا کیریئر یا خاندان تو بیشتر نے کہا کہ ان کے لیے کیریئر زیادہ اہم ہے۔
واضح رہے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کی حالت ملک کے دیگر شہروں سے بھی ابتر ہے، کیونکہ یہاں کی شرح پیدائش 0.55 تک گرگئی ہے جو ملک میں سب سے کم ہے۔