بین الاقوامی قوانین، قرار دادیں، سب مسترد، کرتے ہوئے اسرائیل کا نئی یہودی بستیاں بنانے کے اعلان پر امریکا نے کہا کہ واشنگٹن یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف سمجھتا ہے۔ دوسری جانب روس نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکے گی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ نے ایک بار پھر بین الاقومی قوانین، قرار دادوں اور دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ یہودی بستیوں کی مقبوضہ مغربی کنارے میں تعمیرات جاری رہے گی۔ اسرائیلی وزیر خزانہ اور یہودیوں کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ سموٹریچ نے منگل کے روز نئی یہودی بستیوں کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں
اسرائیل کے نئے اعلان کے مطابق یہودی بستی کو مشمار یہودا کے نام سے غوش عتصمون کے علاقے میں یروشلم کے جنوب میں پہلے سے موجود یہودی بستیوں کے گڑھ میں ہوگی۔ سموٹریچ نے کہا مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری کا کام بھی جاری رہے گا۔
’پورے ملک میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری رکھیں گے‘۔
واضح رہے چند دن پہلے اسرائیلی حکومت نے پہلے سے موجود یہودی بستیوں میں مزید 33ہزار نئے یہودیوں کو لاکر آباد کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، اور نئے گھر 3 مختلف یہودی بستیوں میں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی حکام کے نئے بیان سے واضح ہے کہ ایک جانب پرانی یہودی بستیوں میں توسیع کا کام جاری ہے اور دوسری جانب نئی یہودیوں بستیوں کی منظوری دی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا بھی بظاہر اسرائیل کی ان یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ واشنگٹن یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف سمجھتا ہے لیکن اس سے قبل بھی امریکا اپنے بیانات سے پیچھے ہٹ چکا ہے، جیسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس دیرینہ امریکی موقف سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔
لیکن دوسری جانب روس نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل خلاف قانون جا کر نئی بستیاں قائم کرنا چاہتا ہے تو اسرائیل یہ کبھی بھی نہیں کر سکے گا۔ روسی میڈیا کے مطابق ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے زور دے کر کہا کہ وزارت نے غزہ پر اسرائیل کے منصوبے کو پیش کرنے والی پوری دستاویز نہیں دیکھی، تاہم دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ فلسطینیوں کے لیے موجودہ بین الاقوامی قانونی بنیادوں سے متصادم ہے۔
’تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تصفیے پر کوئی بھی اقدام اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے خلاف جاتا ہے تو وہ ناکام ہی ہوا ہے‘۔
زاخارووا نے غزہ میں پائیدار جنگ بندی کے قیام کو ترجیحی کام قرار دیا اور کہا کہ یہ فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کے جامع حل کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔
تاہم، فلسطینیوں کا موقف بڑاواضح ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع دونوں ہی اسرائیل کی اس لیے پالیسی ہیں کہ اس کے نتیجے میں مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بناتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود میں آنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ مگریہ صورت حال فلسطینیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔