پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں جمعرات کو کچھ تاخیر سے شروع ہوا۔ اس ایوان میں اپریل 2022 کے بعد تحریک انصاف کے رہنما تقریباً 21 ماہ بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے لیکن ان 21 ماہ میں ایوان کا ماحول آج بھی اتنا گرم تھا، جتنا 8 اپریل 2022 کی رات کو تحریک انصاف کے رہنما چھوڑ کرگئے تھے۔
یوں لگا جیسے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے جانے والا اجلاس دوبارہ وہیں سے شروع ہوگیا ہے جہاں پر ختم ہوا تھا۔ اجلاس میں عمران خان، مراد سعید، شاہ محمود قریشی تو موجود نہ تھے لیکن سنی اتحاد کونسل کے ارکان اسمبلی سابق وزیراعظم عمران خان کے چہرے کا ماسک اور عمران خان کی تصاویریں لیے اجلاس میں شریک ہوئے، جس سے اجلاس کے ابتدا سے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ پہلے اجلاس کی کارروائی بہت ہی ہنگامہ خیز ہونی ہے۔
مزید پڑھیں
سابق وزیراعظم نوازشریف 7 سال بعد قومی اسمبلی کے رکن کا حلف لینے پہنچے تو ان کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں بطور مہمان شریک ہوئیں۔ ارکان اسمبلی حلف اٹھانے کے بعد رول آف ممبر کے رجسٹر پر دستخط کرنے کا مرحلہ شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے ممبران نے عمران خان کے بینرز اٹھائے، اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج شروع کردیا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف رول آف ممبر پر دستخط کرنے پہنچے تو ایوان میں ’ووٹ چور مینڈیٹ چور‘ کے نعرے گونجتے رہے جواب میں لیگی ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی نعرہ بازی کی گئی، سنی اتحاد کونسل کے ارکان رول آف ممبر پر دستخط کرنے آتے تو عمران خان کی تصویر لہراتے جس پر’ریلیز عمران خان‘ درج تھا، ہر ممبر دستخط کرنے کے بعد عمران خان کے حق میں نعرہ لگاتا اور سامنے نشستوں پر بیٹھے دیگر ارکان نعروں کا بھرپور جواب دیتے۔
شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی دستخط کرنے آئے تو انہوں نے اپنے والد شاہ محمود قریشی کی تصویر لہرائی، سوات کے حلقے سے کامیاب ہونے والے امیدوار سہیل سلطان نے مراد سعید کی تصویر کے ہمراہ ایوان میں شرکت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کی اس حکمت عملی کے جواب میں مسلم لیگ ن کے پاس جوابی حکمت عملی نظر نہیں آرہی تھی جبکہ ان کے اتحادی اس سارے معاملے سے قطع تعلق تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان رول آف ممبر پر دستخط کرتے اور ایوان سے باہر چلے جاتے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان اجلاس کے آخر تک ایوان میں بیٹھے رہے۔ اپوزیشن کے بھرپور احتجاج کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ارکان تو کرتے رہے لیکن اتحادیوں کی عدم دلچسپی کے باعث ن لیگ اقیلیتی جماعت نظر آئی اور سنی اتحاد کونسل کا پلڑہ خاصا بھاری رہا۔
تحریک انصاف کے متعدد رہنما جو کئی عرصہ سے روپوش تھے، وہ پارلیمنٹ کی لابیز میں ایک دوسرے سے گلے ملتے رہے۔ شہریار آفریدی اور فیصل جاوید ایک دوسرے سے گلے ملے تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
رول آف ممبرز پر دستخط کرنے کا مرحلہ شروع ہوا تو اسپیکر قومی اسمبلی نے خواجہ آصف کو مائیک دیا جس پر پہلے بیرسٹر گوہر نے شدید احتجاج کیا اور بعدازاں سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے خواجہ آصف کی تقریر کے دوران بھرپور احتجاج کیا۔
بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، لطیف کھوسہ، شہریار آفریدی اور زرتاج سمیت سنی اتحاد کونسل کے تمام ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور ریحانہ ڈار ریحانہ ڈار کے نعرے لگاتے رہے۔
جواب میں خواجہ آصف نے تقریر کے دوران اپنی کلائی پر پہنی گھڑی اتاری اور ہوا میں لہرا دی اور اپنی تقریر جاری رکھی لیکن ان کی آواز ایوان میں نعروں کی گونج میں کہیں دب سی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے ایوان میں احتجاج جاری ہی تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کی کارروائی جمعہ کی صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔
اجلاس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد عمر ایوب باہر نکلے تو چلتے چلتے ان سے پوچھا کہ اتنا ہنگامہ ہوگا تو یہ ایوان کیسے چلے گا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ایوان ایسے ہی چلے گا۔‘