ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت سامنے آیا جب صارفین بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں۔ عوام کے لیے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔
گیس کی قیمتوں کے بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں ایک بار پھر بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 1.27 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد مہنگائی کی مجموعی شرح 32.73 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں گیس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت میں 265 روپے 50 پیسے کا اضافہ ہوا۔
یاد رہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے نومبر 2023 میں بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کیا گیا تھا جو حالیہ اضافے سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن اس وقت پروٹیکیڈ صارفین یعنی کم گیس استعمال کرنے والے صارفین جو کم آمدن والے افراد ہوتے ہیں، ان کے گیس کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم اب نگراں حکومت کے حالیہ اقدام میں ان صارفین کے لیے بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اور صنعتی صارفین پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔
40 ہزار ماہانہ کمانے والا شہری 25 ہزار روپے بل آنے پر ششدر رہ گیا
اسلام آباد کے علاقے بہارہ کوہ سے تعلق رکھنے والے مزمل منصور ماہانہ 40 ہزار روپے کماتے ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نومبر میں جب گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس کے بعد دسمبر میں آنے والے بل نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ مزمل منصور کے مطابق گھر پر ان سمیت صرف 2 افراد ہیں۔ لیکن ان کا گیس کا بل 25 ہزار روپے آیا۔
مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جتنے یونٹس اس بار استعمال ہوئے اتنے ہی یونٹس کا بل گزشتہ برس تقریباً 4 ہزار روپے تک آیا تھا۔ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ بہت بڑا فرق بنتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دسمبر کے بعد انہوں نے گیس کا کنکشن کٹوا دیا، کیونکہ 40 ہزار میں سے آدھے سے زیادہ تنخواہ صرف گیس کے بل میں چلی جائے اور باقی کی بجلی کے بل میں تو انسان کھائے گا کہاں سے۔
مزمل منصور نے کہاکہ اب وہ گیس سلنڈر استعمال کر رہے ہیں، جس کے بعد ان کی زندگی کی ایک پریشانی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ اب سلنڈر استعمال کرنے سے تقریباً ان کے مہینے کا گیس کا خرچ 3500 روپے تک آتا ہے۔
’اس سلنڈر میں صرف ہم گنی چنی چیزیں نہیں بناتے بلکہ جس طرح دوسری گیس استعمال ہوتی تھی ایسے ہی سلنڈر سے بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود 3500 تک ماہانہ گیس کا خرچ پڑتا ہے جو کہ انسان آرام سے کر سکتا ہے‘۔
گیس اور بجلی کے بل دے کر بھوکے رہ کر ہی گزارا ہو سکتا ہے، زینت افتخار
زینت افتخار کا تعلق اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن سے ہے۔ انہوں نے گیس کے بل کے متعلق بات کرتے ہوئے کہاکہ پہلے تو صرف بجلی کی بچت کرنا پڑتی تھی کہ بجلی بہت مہنگی ہے مگر اب پاکستان میں بجلی اور گیس دونوں ہی بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ مڈل کلاس افراد کے لیے بل دینا کسی اذیت سے کم نہیں ہے اتنی تو تنخواہیں نہیں ہیں جتنا بل آجاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ گھر میں 4 افراد ہیں، ان کی ایک بیٹی ہے اور باقی 3 لوگ بڑے ہیں، کہتی ہیں کہ گھر میں صرف ان کے شوہر کمانے والے ہیں جن کی ماہانہ آمدن تقریباً ایک لاکھ کے قریب ہے، جس میں بجلی ،گیس، گھر کا کرایہ دینا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گھر کا کرایہ 30 ہزار ہے اور ان کا گیس کا ماہانہ بل 55 ہزار روپے آیا ہے۔ ’اب انسان گیس کا بل اور گھر کا کرایہ دے تو پورا مہینہ وہ بھوکا رہے تو ہی گزارا ہو سکتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ چند دن بعد رمضان شروع ہونے والا ہے، ابھی تو گیس بھی احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور کچھ اتنا پکایا بھی نہیں جاتا، مگر رمضان میں گیس زیادہ استعمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے اب رمضان آنے کی خوشی کم اور فکر زیادہ ہے کہ بل کیسے دیں گے۔ اب یہی سوچ رہے ہیں کہ رمضان کا مہینہ گیس سلنڈر استعمال کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
’ایک وقت ایسا ہوتا تھا کہ سردیوں میں بجلی کا بل اور گرمیوں میں گیس کا بل کم آیا کرتا تھا لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا، اب تو گرمی ، سردی حتیٰ کے چاروں موسموں میں بجلی اور گیس کی قیمتیں برقرار ہیں۔ اب بجلی اور گیس کی قیمت میں کوئی فرق نہیں رہا‘۔
اتنی سیل نہیں ہوتی جتنے بل دینے پڑ رہے ہیں، ڈھابہ ہوٹل چلانے والا رمضان
کمرشل مارکیٹ راولپنڈی میں ایک ڈھابہ نما ہوٹل چلانے والے محمد رمضان کہتے ہیں کہ وہ بجلی اور گیس کے بلوں سے بہت تنگ آ چکے ہیں۔ اتنے کی تو سیل نہیں ہوتی جتنے بل دینے پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے معاہدوں کا بوجھ بڑے لوگوں پر ہونا چاہیے، ہم غریبوں سے کس چیز کا ٹیکس لیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ہزاروں میں سیل ہو اور لاکھوں میں بل آ جائے تو غریب آدمی کیا کمائے گا اور کیا کھائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گیس استعمال کرنا چھوڑ دی یے۔ کیونکہ وہ مزید نقصان اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے وہ گزشتہ ایک ماہ سے سلنڈر استعمال کر رہے ہیں۔
’شکر ہے کہ ہم نے سلنڈرز استعمال کرنا شروع کر دیے، کیونکہ حکومت نے پچھلے دنوں ایک بار پھر سے گیس کی قیمتیں بڑھا دی ہیں، جو غریبوں پر کسی ظلم سے کم نہیں ہے‘۔
کیا گیس کی قیمتوں کا اثر صرف گیس کے بل تک محدود ہوتا ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر مزمل اسلم نے کہاکہ گیس کی قیمتیں صرف گیس کے بلوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ جو چیز بھی آپ استعمال کرتے ہیں اس پر گیس کی قیمت کا عمل دخل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گیس کی قیمت میں اضافے کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے، جیسا کہ کھاد بنانے والے کارخانوں نے کھاد کی قیمت بڑھا دی ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ آئٹمز میں بھی اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ تندور، لوہا بنانے والے کارخانے جہاں اشیا کے ریٹ بڑھائیں گے وہیں سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ ’ان تمام چیزوں کا براہِ راست تعلق انسان کی ضروریات سے ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں سے لے کر ہر ضرورت کی چیز پر گیس کی قیمتوں کے اثرات آتے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ نگراں حکومت کر کے گئی ہے اس کی جوابدہ آنے والی حکومت ہوگی۔ نئی حکومت کے گلے میں مہنگائی کا ہار ڈال دیا گیا ہے، کیونکہ عوام کا سوال منتخب حکومت سے ہی ہوگا۔
کیا گیس کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے؟
گیس کی قیمت میں مزید اضافے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے کیونکہ اس کا تعلق عالمی منڈی کے ریٹ پر ہوتا ہے۔ جبکہ گیس کی قیمت ایک بار بڑھ گئی تو بس بڑھ گئی۔ اگلی بار اس میں مزید اضافہ ہوگا، کمی نہیں۔
انہوں نے کہاکہ مریم نواز جلسوں میں کہتی رہیں کہ اگر عوام بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی چاہتے ہو تو نواز شریف کو ووٹ دیں۔ اب حکومت بھی انہی کی بننے جا رہی ہے۔ اور آگے عوام کے جب بل آئیں گے تو وہ ان پر ہی انگلی اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اگر مسلم لیگ ن اگر وعدے پورے کرتی ہے تو معیشت کو سنبھالنے میں مشکلات ہوں گی۔ دوسری طرف گیس کی قیمتیں مہنگائی کا طوفان تو برپا کریں گی مگر حکومت کو فائدہ ہوگا کیونکہ ان کے گردشی قرضوں میں کمی ہوگی۔