قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس کا چوتھا روز بھی اپوزیشن اورحکومتی ارکان کے درمیان اکھاڑے کا منظر پیش کر رہا تھا۔
گزشتہ 3 روز سے مسلم لیگ ن سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے اتحادی ارکان کی تنقید کا نشانہ بنتی رہی جبکہ آج پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان اپوزیشن ارکان کا ہدف نظر آئے۔
مزید پڑھیں
پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو تقریر کے دوران سائفر پر بات کرنے پر اپوزیشن ارکان اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوگئی جبکہ بیرسٹر گوہر نے اپنی تقریر کے دوران سوئیس اکاؤنٹس کا ذکر کیا تو پیپلزپارٹی کے اراکین نے شدید احتجاج کیا۔
سوئیس اکاؤنٹ کا ذکر کرنے پر سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض اٹھایا تو ڈپٹی اسپیکر نے بیرسٹر گوہر کا مائیک بند کر کے راجہ پرویز اشرف کو دے دیا جس کے بعد ایوان میں ایک بار پھر ماحول گرم ہوگیا۔
’یہ ہمارا چیئرمین ہے ماڑا، یہ نہیں بولے گا تو کوئی نہیں بولے گا‘
تحریک انصاف / سنی اتحاد کونسل کے رہنما شاہد خٹک اپنی کرسی سے اٹھے اور بولے ’یہ ہمارا چئیرمین ہے ماڑا، اگر یہ نہیں بولے گا تو کوئی نہیں بولے گا۔‘ جس کے بعد اپوزیشن اراکین نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔
اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر نے پی ٹی آئی ارکان کو بٹھایا تو راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اگر یہ رویہ رہا تو یہ کمپنی چلتی ہوئی مجھے نظر نہیں آتی جس پر اپوزیشن کے اقبال آفریدی نے آواز لگائی کہ ہم تو یہی چاہتے ہیں۔
سائفر، ’بیرونی سازش‘ کا تذکرہ اور حکومت گرانے والوں کے فوری ٹرائل کا مطالبہ
بیرسٹر گوہر نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب ہماری خواتین کو گرفتار کیا جاتا رہا، قیصرہ الہی کے سر سے دوپٹہ چھینا گیا تو یہ جمہوریت کی بات کرنے والی جماعت خاموش رہی۔
بیرسٹر گوہر نے سابق آرمی چیف کا نام لیے بغیر سائفر کا ذکر کیا اور کہا کہ بیرونی سازش کے تحت جس نے منتخب حکومت گرائی اس کا فوری ٹرائل کیا جائے۔
بیرسٹر گوہر کی تقریر کے بعد شیر افضل مروت نے مائیک مانگا تو ڈپٹی اسپیکر نے خالد مقبول صدیقی کو مائیک دے دیا۔
اراکین ایک دوسرے کو مارنے کو دوڑے
خالد مقبول صدیقی نے تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ پی ٹی آئی کے اقبال آفریدی نے آوازیں لگانا شروع کردیں اور کہا کہ الطاف کا نام تو لو، غیرت کرو اپنے پارٹی چئیرمین کا نام لو پھر جموہریت کی بات کرنا، جس پر ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے ہاتھوں کے اشارے کیے گئے اور ایوان کا ماحول ایک بار پھر گرم ہوگیا۔
اقبال آفریدی اور شیر افضل مروت ایم کیو ایم رہنما کی طرف دوڑے جسے دیکھ کر ایم کیو ایم رہنما نے بھی اپوزیشن بنچ کی طرف دوڑ لگا دی، اسپیکر ڈائس کے سامنے اقبال آفریدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما پہنچے ہی تھے کہ اسد قیصر بیچ میں آگئے اور بیچ بچاؤ کروایا۔
علی محمد خان نے شیر افضل مروت کو کرسی پر بھیجا اور ایم کیو ایم رہنما کی طرف گئے اور انہیں کرسی پر بٹھا کر آئے۔ اس دوران اسد قیصر اور صاحبزادہ حامد رضا بیچ بچاؤ کرواتے رہے۔
خالد مقبول صدیقی کا خطاب ختم ہوا تو شیر افضل مروت پھر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے بھی مائیک کا مطالبہ کر دیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے شیر افضل مروت کو اختر مینگل کے خطاب کے بعد مائیک دینے کی یقین دہانی کروائی۔
آئین کی کونسی شق فوج کو ہماری پگڑی اچھالنے کی اجازت دیتی ہے، اختر مینگل
سردار اختر مینگل نے عمران ریاض اور اسد طور کی رہائی کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی توقع بھی ظاہر کی۔ سردار اختر مینگل نے خطاب کے دوران اداروں کی مبینہ مداخلت کا ذکر کیا تو سرکاری چینل نے پارلیمنٹ کی کارروائی کا بلیک آؤٹ کر دیا۔
اختر مینگل نے اسٹیبلیشمنٹ کو کھلے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا تو ڈپٹی اسپیکر نے ان کا مائیک بند کیا اور کہا کہ ’آپ سینیئر رکن اسمبلی ہیں آئین کے تحت فوج پر تنیقد نہیں کی جاسکتی۔‘
جس پر اختر مینگل نے کہا ’شکریہ ڈپٹی اسپیکر صاحب! مجھے آئین کی وہ شق بھی بتا دیں جس میں فوج کو ہماری پگڑی اچھالنے کی اجازت ہو۔‘
کورم (پورا نہ ہونے) کی نشاندہی کردیں گے، شگفتہ جمالی کی دھمکی
اختر مینگل کا خطاب ختم ہوا تو شیر افضل مروت اپنی کرسی پر کھڑے ہوئے، دپٹی اسپیکر نے انہیں مائیک دیا تو پیپلزپارٹی کی رہنما شگفتہ جمانی نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہمیں مائیک نہیں دیا تو ہم کورم کی نشاندہی کردیں گے۔
اس پر اجلاس میں ایک بار پھر آوازیں لگنی شروع ہوگئیں۔ پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر نے شیم شیم کے نعرے لگائے کہ ’حکومت میں ہو کر کورم کی نشاندہی، شیم شیم!‘
اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی 8 مارچ شام 4 بجے تک ملتوی کردی۔