پاکستانی نژاد کرکٹر سکندر رضا کا ان دنوں زمبابوے میں طوطی بول رہا ہے۔ وہ زمبابوے کی قومی کرکٹ ٹیم کے ایک بہترین کھلاڑی ہیں، جنہوں نے اپنی پرفارمنس اور جاندار کھیل کی بدولت زمبابوے کی کرکٹ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
مزید پڑھیں
سکندر رضا کی زمبابوے میں مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ زمبابوے کے سب سے بڑے فٹ بال کلب کے سابق کپتان کے لیے بنائے گئے نغمے ’مونیا‘ کو اب لوگ سکندر رضا کے لیے گاتے ہیں اور کرکٹ گراؤنڈز میں اس نغمے کے دوران فٹ بال کپتان کے نام کی جگہ ’رضا‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
جنوری 2022 سے اب تک، سکندر رضا نے ایک روزہ انٹرنیشنل میچز اور ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز میں 40 کی اوسط سے تقریباً 2500 رنز بنائے۔ اسی عرصہ کے دوران انہوں نے 71 وکٹس بھی حاصل کیں۔
سکندر رضا پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے مسلسل 5 ٹو ٹونٹی انٹرنیشنل میچز میں نصف سینچریاں بنائی ہیں۔ انہیں مسلسل 2 مرتبہ آئی سی سی ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل پلیئر آف دی ایئر کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
’میں زمبابوین ہوں‘
سکندر رضا خود کو زمبابوین کہتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ 2 دہائیوں سے زمبابوے میں مقیم ہیں اور اس وقت زمبابوے کی ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔
سکندر رضا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی گلیوں میں انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ اس حوالے سے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے سکندر رضا نے بتایا کہ طالبعلمی کے زمانے میں ان کی زندگی صرف پڑھائی تک ہی محدود تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔
سکندر رضا نے بتایا کہ 2003 میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ زمبابوے آگئے تھے، لیکن جلد ہی وہ تعلیم کے حصول کے لیے اسکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں سے انہوں نے سوفٹ انجینئرنگ میں بیچلر ڈگری مکمل کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ انہیں کرکٹ میں اپنا کیرئر بنانا ہے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی سال تھا کیونکہ 2009 میں اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے دوبارہ اسکاٹ لینڈ چلے جاتے۔
’کرکٹ کھیلنے کا کبھی سوچا نہیں تھا‘
سکندر رضا اسکاٹ لینڈ میں بھی کلب کرکٹ کھیلتے رہے لیکن ان دنوں انہوں نے پیشہ ورانہ کرکٹر کے طور پر کھیلنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اس وقت جن لوگوں نے انہیں کھیلتے دیکھا، انہیں بھی ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ ایک پروفیشنل کرکٹر بن سکتے ہیں۔
زمبابوے کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ اسٹیفن مینگونگو کا کہنا ہے، ’سکندر نے جب کلب کرکٹ کا آغاز کیا تو وہ ایک عام سے کھلاڑی تھے لیکن ان میں کھیلنے کا جذبہ اور سیکھنے کی لگن دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔‘
زمبابوے کرکٹ کے سابق اہلکار اور اسپورٹس لکھاری بلیسنگ مولگے بھی سکندر رضا کو اس وقت سے جانتے ہیں جب انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ ان کا کہنا ہے، ’میں نے انہیں ایک لیگ میچ میں کھیلتے دیکھا، اس میچ میں انہوں نے زیادہ رنز نہیں بنائے لیکن ان کا انداز جارحانہ تھا اور انہوں نے کچھ باؤنڈریز پر شاٹس بھی کھیلیں۔‘
2013 میں زمبابوے کا شہری بننے کے بعد سکندر رضا نے انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کیا اور بہت جلد ہی اپنے شاندار کھیل کی بدولت زمبابوے کے لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگے۔
’کرکٹ کھیلنے کے لیے زیادہ وقت نہیں بچا‘
گزشتہ 11 برس کے دوران انہوں نے مختلف فارمیٹس کے 240 میچز میں 7 ہزار سے زائد رنز بنائے۔ انہوں نے 220 ڈومیسٹک ٹی ٹونٹی میچز اور تقریباً 250 لسٹ اے میچز کھیلے اور 25 سے زیادہ ٹیموں اور فرنچائزز کی نمائندگی کی۔
سکندر 30 برس کے تھے جب انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کیا۔ ان کے پاس کرکٹ کھیلنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا ایک مقام حاصل کیا ہے۔
آسٹریلیا کو 2 مرتبہ ورلڈ کپ جتوانے والے کپتان رکی پونٹنگ نے بھی سکندر رضا کے کھیل کی تعریف کی ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ 2022 کے دوران ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ سکندر رضا پھر سے 26 سال کے ہوگئے ہیں۔
زمبابوے کرکٹ ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں کی جا رہی ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ سکندر رضا آئی سی سی ورلڈ کپ 2027 تک زمبابوے کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کریں گے اور زمبابوے کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال قائم کریں گے۔