سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بتایا کہ صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ کے تمام 38 وفاقی وزرا بھی سابق وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کو عہدے سے ہٹوانا چاہتے تھے۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے چوہدری سرور نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی تھی کہ عثمان بزدار کی کارکردگی اچھی نہیں اس لیے انہیں ہٹایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ علیم خان کو وزیرِاعلی بنایا جائے، وہ کہتے تھے کہ عثمان بزدار کے علاوہ کسی اور کو وزیرِاعلی بنا دیا جائے لیکن عمران خان نہیں مانے۔
’38 رکنی کابینہ کے تمام وزرا نے عثمان بزدار کو ہٹوانے کے لیے زور لگایا مگر عمران خان نہیں مانے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘تحریک انصاف حکومت کے اس وقت جو وزرا تھے وہ میرے ساتھ بیٹھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عثمان بزدار کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹایا جائے’۔
گفتگو میں سابق گورنر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پارٹی کے زیادہ تر فیصلے عمران خان خود کیا کرتے تھے، بشری بی بی اور فرح گوگی نہیں۔
‘بزدار حکومت میں کرپشن عروج پر تھی’
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری سرور کا مزید کہنا تھا عثمان بزدار حکومت میں کام کروانے اور ٹرانسفر پوسٹنگ پر کمیشن ریٹ 55 فیصد تک چلا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ‘جب میں پاکستان آیا تو اس وقت ان کاموں کا ریٹ 10 فیصد تھا اور ہر 3، 3 ماہ بعد ڈی سیز، سیکرٹریز، ایس پیز تبدیل ہوتے تھے۔ میں نے عثمان بزدار کو کہا کہ ایک ہوا بنتی جارہی کہ یہاں پر رشوت لے کر کام ہوتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ فرح گوگی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کرواتی تھیں، بزدار حکومت میں فرح گوگی کے علاوہ اور لوگوں نے بھی بہت پیسہ کمایا مگر فرح گوگی ایک آسان ہدف ہے اس لیے سارا نزلہ ان پر گرتا ہے’۔
پارٹی چھوڑنے کی اصل وجہ پرویز الہی کو وزیرِاعلی پنجاب بنانا تھا
سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کا کہنا تھا عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پرویز الہٰی لے کر آئے تھے۔ ‘میں نے عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے 184 ممبران ہیں اور آپ ان میں سے کسی کو بھی وزیرِاعلی کا امیدوار بنا دیں۔ میں نے یہ بھی یقین دہانی کروائی تھی کہ پرویز الہیٰ تحریک عدم اعتماد لے تو آئے ہیں مگر میں گارنٹی کرتا ہوں کہ یہ تحریک کامیاب نہیں ہوگی۔ عمران خان نے کہا جہانگیر ترین اور علیم خان کے لوگ ووٹ نہیں کریں گے لیکن میں نے کہا کہ ان سے میں بات کروں گا اور وہ بھی ووٹ دیں گے مگر خان صاحب نہیں مانے’۔
چوہدری سرور نے کہا کہ عمران خان کو عثمان بزدار کا استعفی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر ہم نے ساڑھے 3 سال عثمان بزدار کو برداشت کرلیا تھا تو تھوڑا اور بھی کرلیتے تو کیا ہوجاتا۔
‘جہانگیر ترین سمیت سب کو مسلم لیگ (ق) میں آنے کی دعوت دیتا ہوں’
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ ‘میں ہر اس شخص کو مسلم لیگ (ق) میں آنے کی دعوت دیتا ہوں جو ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں پھر چاہے وہ جہانگر ترین ہو یا کوئی اور۔ میری ایک خواہش ہے کہ ایسی جمہوری پارٹی بناؤں جہاں جمہوریت ہو اور کارکن کی عزت ہو’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘مجھے بہت سی جماعتوں سے اچھے عہدوں کی آفر تھی اور میں کسی بھی پارٹی میں جاسکتا تھا لیکن کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ مسلم لیگ (ق) میں جانا اچھا فیصلہ ہوگا۔ چوہدری شجاعت حسین نے مجھے پورا کنٹرول دیا ہے اور میں اب پارٹی کو مزید بہتر کروں گا’۔
‘میرا پوری دنیا میں کاروبار ہے، میرے بیٹے بھی باہر کاروبار کرتے ہیں’
سابق گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ‘میرے 2 بیٹے بہت اچھا کاروبار کر رہے ہیں۔ ایک بیٹا اسکاٹ لینڈ میں سیاست کر رہا ہے اور وہ اسکاٹش پارٹی کا لیڈر بھی ہے، اگر اللہ نے چاہا تو میرا بیٹا اسکاٹ لینڈ کا وزیرِاعلی بھی بنے گا’۔
‘پی ڈی ایم عوام کی توقعات ہر پوا نہیں اترسکی’
رہنما مسلم لیگ (ق) چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت میں ہماری جماعت کے اس وقت 2 وزرا ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم عوامی توقعات پر پورا نہیں اترسکی جس کے سبب تحریک انصاف عوام میں مقبول ہوگئی ہے۔