چاچو کو سلوٹ پسند ہے

جمعرات 7 مارچ 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آرمی چیف جنرل عاصم منیر منتخب وزیراعظم سے ملاقات کرنے پہنچے۔ روایت کے مطابق یہ کرٹسی کال تھی۔ میاں محمد شہباز شریف بے تابی سے اٹھے اور دروازے پر جاکر انہوں نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔ آرمی چیف سے بھی پہلے وزیراعظم صاحب نے آرمی چیف کو سلوٹ کردیا۔

نومبر 2022 میں بھی جب دونوں کی ملاقات ہوئی تھی تب بھی شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو ایسے ہی سلام کیا تھا۔ یہ ان کی عادت یا مزاج کا حصہ ہوگا۔ مریم نواز کے الفاظ میں کہیں تو ان کے چاچو کو سلوٹ پسند ہے۔

یہ ملاقات ایسے مبارک موقع پر ہوئی جب الیکشن کمیشن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مخصوص نشستوں کے لیے کیس خارج کرچکا تھا۔ سنی اتحاد کے حصے میں جو نشستیں نہ آسکیں وہ حکومتی اتحاد میں تقسیم کردی گئی ہیں۔ اب الحمدللہ حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ یہ کارنامہ ایک ایسے الیکشن کے نتیجے میں سر انجام پایا ہے جس کے نتائج پر ہر پارٹی کو رونے آرہے ہیں۔ چیخیں تو خیر سب جیتنے ہارنے والے ہی مار رہے ہیں۔

پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ 25 کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا ملک۔ اگر ہم اپنی سیاپا طبعیت کو ایک طرف رکھیں اور ایک مختلف انداز میں سوچیں تو پاکستان کی آبادی میں یورپ یا خلیج کے امیر ملکوں جیسی قوتِ خرید رکھنے والی آبادی بھی کروڑوں میں ہے۔

ہمارے کچھ شہروں کی فی کس آمدن ترقی یافتہ ملکوں والی ہے۔ مثال کے طور پر سیالکوٹ۔ ایسے ہی کچھ دیہات، قصبات اور بھی ہوں گے۔ ہمارا جی ڈی پی سائز دیکھ کر ہی کوئی ہمیں اگنور نہیں کرسکتا۔ پاکستان کا 41واں نمبر ہے۔ کویت ہم سے پیچھے ہے، کیسا لگا جان کر؟

تحفے بطور سرپرائز دینا رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ریاستیں سرپرائز پر نہیں چلتی ہیں۔ امریکا واحد عالمی طاقت ہے اور اسی کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ امریکا کے ریاستی نظام میں کوئی سرپرائز نہیں ہے۔ آپ نے 50 سال بعد بھی وہاں ہونے والے انتخابات کی تاریخ نکالنی ہے تو آپ آج نکال سکتے ہیں۔ اس تاریخ کے حوالے سے کوئی سرپرائز پچھلے اور گزرے 50 سال میں بھی نہیں ہے۔ ہم اپنی ریاست سرپرائز پر ہی چلا رہے ہیں۔

سرپرائز کے ساتھ معیشت ترقی نہیں کرتی۔ پالیسی مستقل ہو، استحکام مستقل ہو، قوانین واضح ہوں، امن و امان قائم ہو، انصاف ملتا ہو، الیکشن کے نتائج مانے جاتے ہوں، حکومتیں مدت پوری کریں نہ کریں۔ ان کے آنے جانے کا سلسلہ قانون آئین سے جڑا ہو اور جیت ہار کو تسلیم کرنے والے سیاستدان ہوں، تو کام چل نکلتا ہے اور بات بنی رہتی ہے۔

کور کمانڈر کانفرنس کے حالیہ اجلاس کا ایک اعلامیہ آیا ہے۔ اس میں 9 مئی کے ملزمان کو وزیراعظم کے ویژن مطابق انصاف کے عمل سے گزارنے کی بات کی گئی ہے۔ وزیراعظم کا ویژن تو سلوٹ مارنے کا ہے۔ 9 مئی کے مفرور ملزمان الیکش لڑ کر جیت بھی گئے تو اعلامیے میں یہ لائین ڈالنے کا پھر مطلب کیا ہے؟

جنرل عاصم منیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پرانی تجویز ہے کہ سارے اسٹیک ہولڈر کچھ بنیادی امور طے کرلیں۔ کم از کم معاشی امور پر کوئی میثاق کرلیں اور سیاست کو بھی اس میں شامل کرلیں۔ اس تجویز پر عمل ہونا چاہیے۔ اس پر عمل نہ ہوا تو اس کے بغیر بھی ملک تو چلتا ہی رہے گا لیکن چلے گا ویسے ہی جیسے چلتا آ رہا ہے۔

پاکستان کی سیاسی، حکومتی اور ریاستی قیادت کا اپنے ہی ملک کے 35 سال سے کم عمر کے لوگوں سے فاصلہ بڑھ چکا ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ کہ کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ دراصل سوچ ہی مختلف ہے۔ لوگ کچھ اور چاہتے ہیں جبکہ لیڈران کچھ اور دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں میڈیا سے متعلق ایسے بزرگ سوشل میڈیا پالیسیاں بنا رہے ہیں، جو خود بٹنوں والے موبائل استعمال کرتے ہیں۔

مائی گارڈ سوچ کا یہ فرق کم کرلیں۔ ورنہ ہونا یہی ہے کہ آپ کو وہ کشن نہیں ملنا جو سیاسی حکومت فراہم کرتی ہے اور سیاسی انداز میں مسائل کو بارگین کرتی راستہ نکالتی ہے۔ ہر ٹٹ پڑنا سفیر منہ اٹھا کر پنڈی پہنچا رہے گا اور رنگ برنگے مطالبات کرے گا۔ چاچو کو سلوٹ پسند ہے تو ہم سے بھی کروا لیں۔ ہم کوئی چاچو سے کم چاہنے والے ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp