اے ایس آئی ہو یا پٹواری،برطرفی پر پنشن اور مالی مفادات ختم ہو جاتے ہیں، جج استعفیٰ دیکر سب وصول کرتے رہتے ہیں

جمعہ 8 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کر چکے ہیں تو کیا وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر عمل کرتے ہوئے ان کو برطرف کر سکتے ہیں؟

یہ وہ بنیادی سوال ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کے 29 فروری کو ہونے والے اجلاس کے بعد 7 مارچ کو جاری ہونے والے اعلامیے کے بعد پیدا ہو گیا ہے، جس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے رائے دی ہے کہ جسٹس نقوی کو برطرف کیا جانا چاہیے تھا۔

گزشتہ ماہ 21 فروری کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے عافیہ شہربانو مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی جاری ہو اور وہ جج استعفیٰ دے دے تو کارروائی جاری رہے گی۔

اسی تناظر میں مستعفی جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی کو جاری رکھا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مجموعی طور پر 5 الزامات ثابت ہوئے۔

انہوں نے عہدے کے دوران اپنے دفتری اور ذاتی امور میں غیر مناسب طریقہ کار اختیار کیا، جو کہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

چوہدری شہباز کیس میں جسٹس نقوی نے ذاتی مفاد اور جانتے بوجھتے ہوئے کم عمر بچوں کو قیمتی جائداد سے محروم کیا۔

عہدے کے دوران قیمتی تحائف 50 لاکھ، کمرشل و رہائشی پلاٹس وصول کیے، جن کی وضاحت نہیں کی جس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی۔

مستعفی ہونے کے بعد جسٹس نقوی اعلیٰ عدلیہ کے سابق جج صاحبان کو ملنے والی مراعات وصول کریں گے۔اعلیٰ عدلیہ کی سابق جج صاحبان بھاری پنشنز اور مالی مراعات وصول کرتے ہیں اور اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر عمل نہیں ہوتا تو وہ یہ مراعات وصول کرتے رہیں گے۔ اس بارے میں وی نیوز نے قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے بعد پیچیدہ آئینی سوال پیدا ہو گیا ہے، کامران مرتضیٰ

سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ پہلے آیا جو صدر پاکستان نے منظور بھی کر لیا تو اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا وہ استعفیٰ ختم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ یقینی طور پر عدالت میں جائے گا، کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کوئی عدالت نہیں۔ اور شاید مظاہر علی اکبر نقوی بھی اس معاملے کو عدالت لے کر جائیں گے کہ جب انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا تو ان کو برطرف کرنے کا اقدام خلاف آئین تھا۔

صدر مملکت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر عمل درآمد کرنے کے پابند نہیں اور اب تو صدر بھی تبدیل ہونے جا رہا ہے اور ایسی صورت میں اگر نئے آنے والے صدر آصف علی زرداری اس معاملے پر کوئی کارروائی کرتے ہیں تو صدر کے عہدے کے بارے میں سوال پیدا ہو جائیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے اس آئینی سوال کا جواب درکار ہو گا کہ آیا استعفے کو ختم کر کے کسی جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس نقوی کی برطرفی شاید ممکن نہیں تاہم نیب کارروائی کر سکتا ہے، عمران شفیق

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، جسٹس نقوی کا استعفیٰ قبول کر چکے ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جب سپریم کورٹ نے ریفرنس خارج کیا تو فیصلے میں کہا گیا کہ صدر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہوئے اپنا ذہن آزادانہ طریقے سے استعمال نہیں کیا۔ جسٹس نقوی کے معاملے میں صدر اپنا اختیار استعمال کر چکے ہیں اور اب نئی صورتحال میں صدر کے سامنے سوالات ہوں گے کہ آیا جس نقوی کے خلاف ٹرائل چلا انہیں اپنے دفاع کا موقع دیا گیا؟ اور کیا وہ کونسل کے سامنے پیش بھی ہوئے یا نہیں؟

عمران شفیق نے کہا کہ صدر مملکت اگر جسٹس نقوی کے استعفے کی منظوری سے متعلق صدر مملکت اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کریں گے تو جسٹس نقوی کی پنشن اور مراعات جاری رہیں گی۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔

ایک اے ایس آئی پٹواری کو برطرفی پر پنشن نہیں تو ججز کو کیوں،حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب جسٹس نقوی کی کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے بطور چیئرمین، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کو بلا کر اس بات پر اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا کہ سب سپریم جوڈیشل کونسل میں الگ الگ درخواستیں دائر کریں گے، جو کہ کی گئیں۔ اور اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ  40-50کروڑ کا پلاٹ 12 کروڑ میں خریدا گیا، تو اب نیب کو اس میں کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک معمولی سرکاری ملازم وہ اے ایس آئی ہو یا پٹواری، اس کو جب برطرف کیا جاتا ہے تو اس کے پنشن سے متعلق مالی مفادات ختم ہو جاتے ہیں، تو ججوں کے معاملے میں یہ تضاد کیوں ہے کہ کسی جج کے خلاف جب ریفرنس دائر ہوتا ہے یا شروع ہوتا ہے تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے اور اس کے بعد سارے مالی مفادات سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے اور خود کو ریٹائرڈ جج بھی لکھ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک عام سرکاری ملاز م پر برطرفی کے بعد بھی جرم کے حوالے سے ذمے داری رہتی ہے تو بطور ایک عام شہری بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ ججوں کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہے؟

حسن رضا پاشا نے کہا کہ آرٹیکل 209 جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب ہوتا ہے، اس میں کہیں نہیں لکھا کہ استعفے کی صورت میں کارروائی ختم کر دی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp