خیبر پختونخوا میں وزارتوں کا پس منظر

جمعہ 8 مارچ 2024
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بحیثیت وزیر اعلیٰ حلف لے کر جس علی امین گنڈاپور کو کابینہ کی تشکیل ممبران اسمبلی کے ساتھ مشاورت انتظامی افسران کے ساتھ میٹنگز اور صوبے کی دگرگوں مالی معاملات پر توجہ دینی چاہیے تھی وہی منتخب وزیر اعلیٰ اچانک اسلام آباد کے خیبر پختونخوا ہاؤس میں آ کر بیٹھ گئے اور پھر ایک ’مشکوک‘ صورتحال نے بھی جنم لیا جس میں وزارتوں کے حوالے سے لین دین کی باتیں بھی سامنے آنے لگیں تا ہم ان باتوں کی واضح شہادت کے فقدان کے سبب ہم موجود اور واضح حقائق پر ہی بات کر لیتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے گو کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات بھی کی اور ان سے ہدایات بھی لی لیکن کابینہ میں شامل ہونے والے وزرا نے نہ صرف عمران خان کے اس بیانیے کو مکمل طور پر جھٹلایا کہ ہم عام لوگوں کو اقتدار میں لائیں گے بلکہ نئے وزرا کے لیے ہونے والی پراسرار لابنگ اور ان کے خاندانوں کے اثر و رسوخ اور توانا مالی حیثیت نے بہت سے سوالات کو بھی جنم دیا۔

مثال کے طور پر صوابی ہی سے اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ خان اور شہرام ترکئی کے بھائی فیصل ترکئی کا تگڑی وزارتوں پر قبضہ کس جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اسی طرح پشاور سے 3 بار منتخب ہونے والے فضل الٰہی کی بجائے پہلی بار منتخب ہونے والے اور مضبوط مالی حیثیت کے حامل مینا خان آفریدی کی کابینہ میں شمولیت کے ساتھ ساتھ پشاور ہی سے ممبر صوبائی اسمبلی قاسم علی شاہ کی غیر متوقع شمولیت اور کابینہ کی تشکیل سے ایک دن پہلے خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں امین گنڈاپور سے ہونے والی ’ملاقات‘کے باعث چہ مگوئیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

حالانکہ قاسم علی شاہ چند دن پہلے ڈپٹی اسپیکر شپ کے لیے خود کو پیش کر رہے تھے اور اسے بھی پارٹی کی پذیرائی نہیں مل رہی تھی۔ اسی طرح عمر ایوب کے کزن ارشد ایوب  شیر افضل مروت کے بھائی اور عمران خان حکومت کے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کے بھتیجے کے ساتھ ساتھ سوات سے عبد الحکیم خان کی شمولیت معاملات کو مزید گمبھیر اور پر اسرار بنا رہی ہے۔

عبد الحکیم خان کو مراد سعید کے کہنے پر ایک تگڑی وزارت سے نوازا گیا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ 9 مئی واقعے کے مفرور مراد سعید اگر صوبائی حکومت کی تشکیل میں اپنے اثر و رسوخ اور کردار کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے عمران خان سے امین گنڈاپور تک رابطوں میں ہیں تو ریاستی ادارے ان تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں؟

خیبر پختونخوا کی سطح پر پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندیوں با اثر دھڑوں اور ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پھر خصوصی طور پر کابینہ کی تشکیل نے پارٹی پر عمران خان کی گرفت کے حوالے سے بھی سوالات کو جنم دیا ہے۔

پی ٹی آئی میں دھڑے بندیوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ ایبٹ آباد سے ہمیشہ منتخب ہونے اور پچھلی بار اسپیکر رہنے والے مشتاق غنی کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا کیونکہ ہزارہ کی طاقت اور اختیار میں ہری پور کا ایوب خاندان کسی اور کو شریک ہونے ہی نہیں دیتا اور مشتاق غنی کا تعلق ہری پور سے ملحقہ ضلع ایبٹ آباد ہی سے ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp