میں ٹھیٹھ پنجابی ہوں، دل چاہتا ہے اپنی زبان کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے، مریم نواز

ہفتہ 9 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم اپنی مقامی زبانوں کو بھولتے جا رہے ہیں’ ہمارا حال بھی یہی نظر آتا ہے کہ ’کوّا چلا ہنس  کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘ ۔ دل چاہتا ہے کہ اسکولوں، کالجوں میں ’ پنجابی زبان‘ کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے۔

لاہور میں پنجاب کے ثقافتی دن کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کہا کہ جو مزہ اپنی زبان میں بات کرنے میں آتا ہے وہ کسی اور میں نہیں، اردو ہماری قومی زبان ہے، وہ بھی بولنی چاہییے لیکن اپنی مقامی زبانیں ہماری ثقافت کا اہم جزو ہیں، انہیں کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی پنجاب کے بچوں کو پنجابی بولتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے، ہمارے پنجاب کے عوام کو بھی اپنے بچوں کو پنجابی سکھانی چاہیے۔ چاہتی ہوں کہ پنجابی کو فخر سے بولیں۔

مریم نواز نے کہا کہ جب آپ اپنی زبان سے دور ہو جاتے ہیں تو آپ اپنے روٹ اور ثقافت سے ہی الگ ہو جاتے ہیں، پھر مثال یہ بن جاتی ہے کہ ’ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بول گیا‘ آج کل بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ہم آج دوسروں کے کلچر پر چل پڑے ہیں

ہم آج دوسروں کے کلچر پر چل پڑے ہیں اور اپنی ثقافت ہی بھول گئے ہیں، میرا دل کرتا ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبا پنجابی بولیں، دل چاہتا ہے کہ پنجابی کو بطور مضمون متعارف کرائیں تاکہ ہمارے بچے اسے سمجھیں اور بولیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کا کلچر اتنا گہرا اور وسیع ہے، میں خود بھی ایک ٹھیٹھ پنجابی ہوں، میری ثقافت اس قدر گہری ہے، اس میں رکھ رکھاؤ ہے، ادب و احترام ہے، بیٹیوں کی عزت کرنا، سر پر ہاتھ رکھنا، دوسروں کی بہو بیٹیوں کی عزت کرنا، ان کا احترام کرنا یہ سب ہماری رویات ہیں لیکن افسوس ہم آہستہ آہستہ ان کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔

ہماری سیاست میں ’ گالم گلوچ‘ دوسروں کی بہو، بیٹیوں کی عزت نہ کرنے کا کلچرمتعارف ہوا 

انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست میں ’ گالم گلوچ‘ دوسروں کی بہو، بیٹیوں کی عزت نہ کرنے کا کلچر، چاہے وہ کسی جماعت میں بھی ہو، اچھی روایت نہیں ہے۔ اس نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، یہ ہم سب کے لیے لحمہ فکریہ ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے کلچر میں عزت و احترام کا کلچر ہوا کرتا تھا، اس میں دوسروں کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو عزت دیا کرتے تھے، یہ مشہور تھا کہ ’ مائیں اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں‘ ، افسوس ہے کہ ہم ان روایات کو بھولتے جا رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp