گوگل کا سابق چینی انجینیئر مصنوعی ذہانت کے راز چرانے کے الزام میں گرفتار

پیر 11 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گوگل کے ایک سابق سافٹ ویئر انجینیئر پر امریکا نے 2 چینی کمپنیوں کے لیے خفیہ طور پر کام کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے تجارتی راز چرانے کا الزام عائد کیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق لِن وے ڈنگ جسے لیون ڈنگ بھی کہا جاتا ہے کیلیفورنیا میں 4 الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور پھر گرفتار کر لیا گیا۔

چینی شہری نے مبینہ طور پر 500 سے زائد خفیہ فائلیں چرائی ہیں۔ جرم ثابت ہونے پر اسے 10 سال تک قید اور ہر شمار پر ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان پر جن معلومات لینے کا الزام ہے اس کا تعلق گوگل کے سپر کمپیوٹنگ ڈیٹا سینٹرز کے انفراسٹرکچر سے ہے جو بڑے اے آئی ماڈلز کی میزبانی اور تربیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے مطابق محکمہ انصاف مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کی چوری کو برداشت نہیں کرے گا جو ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

فرد جرم کے مطابق سنہ 2019 میں امریکی کمپنی میں ملازمت کرنے والے لن وے ڈنگ پر مئی 2022 تک 500 سے زائد فائلیں خفیہ طور پر ڈاؤن لوڈ کرنے کا مقدمہ چلایا جائے گا جو کہ گوگل کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کی گئی تحقیق سے متعلق ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق انجینیر کے خلاف چار الزامات میں سے ہر ایک میں دس سال قید اور 250,000 ڈالر جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور چین حالیہ برسوں میں ایک تلخ تجارتی جنگ میں مصروف ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس تنازعے کے نتیجے میں دیکھا جاتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی کئی سو ارب ڈالر مالیت کی اشیا پر محصولات عائد کرتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور فریقین نے کمپیوٹر چپ کی برآمدات پر پابندی سمیت تجارت کی راہ میں نئی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔

واضح رہے کہ چین اور امریکا نے اس سے پہلے بھی جاسوسی کے الزامات میں ایک دوسرے کے شہریوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس چین کی عدالت نے 78 سالہ امریکی شہری جان شنگ وان لیونگ کے خلاف ملنے والے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ملکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور امریکا کے لیے جاسوسی کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

علاوہ ازیں امریکی استغاثہ نے لاس اینجلس کی ایک کمپنی کے انجینیئر پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے جوہری میزائل لانچوں کا پتا لگانے اور بیلسٹک اور ہائپرسونک میزائلوں کو ٹریک کرنے کے لیے خلا میں امریکی حکومت کے استعمال کے لیے تیار کردہ خفیہ ٹیکنالوجی چوری کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp