پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ابتدائی 9 رکنی ٹیم کا اعلان کردیا ہے۔ اس نئی کابینہ میں پرانے چہرے ہونے سے یہ بات تو طے ہے کہ مراد علی شاہ پرانی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے تا کہ تسلسل برقرار رکھ سکیں۔ 9 رکنی ٹیم میں کس کس کو کون سی وزارت ملی؟
مزید پڑھیں
وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ
ناصر حسین شاہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہر دور حکومت میں یہ کابینہ کا حصہ رہے اتنا ہی نہیں بلکہ اس بار انکا نام وزارت اعلی کے لیے بھی لیا جا رہا تھا، ناصر حسین شاہ اس سے قبل 4 بار صوبائی وزیر سندھ رہے ہیں انکے پاس انفارمیشن، سندھ لوکل گورنمنٹ، ریلجیز افیئرز اور جنگلات کے وزارتوں کا قلمدان رہا ہے۔
ایکسائز ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن
شرجیل انعام میمن پاکستان پیپلز پارٹی کے متحرک رہنماء ہیں اور 2008 سے سندھ اسمبلی کا اور 2011 سے سندھ کابینہ کا حصہ رہے انہیں قائم علی شاہ کے دور میں پہلی بار 2011 میں انفارمیشن اینڈ آرکایئو کا وزیر بنایا گیا، 2015 میں انہیں انفارمیشن اینڈ ارکائیو کے ساتھ ورکس اینڈ سروسز کا اضافی قلمدان سونپا گیا، شرجیل انعام میمن کو کرپشن ریفرنس میں نیب حراست میں بھی لے چکی ہے جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسپتال میں انکے کمرے سے شراب برآمد کرنے کا کیس بنایا تھا جو اب بھی ماتحت عدالت میں زیر سماعت ہے۔
وزیر تعلیم و معدنیات سید سردار علی شاہ
سید سردار علی شاہ کا شمار بھی ان صوبائی اسمبلی اراکین میں ہوتا ہے جو ہمیشہ سے کابینہ کا حصہ رہے ہیں سردار علی شاہ کے پاس اس سے قبل صوبائی وزیر برائے تعلیم، کلچر، ٹورازم اینٹیکس اینڈ آرکائوز کے قلمدان رہے ہیں۔
ضیاء الحسن لنجار، محکمہ داخلہ
ضیاء الحسن لنجار جو سابق صوبائی وزیر قانون رہے ہیں، پیشے سے ایک وکیل ہیں اور نائب صدر سندھ بار کونسل بھی منتخب ہو چکے ہیں یہ اس وقت کی بات ہے جب 2019 میں انکے خلاف نیب نے کرپشن ریفرنس تیار کیا تھا جس میں نیب نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ضیاء الحسن لنجار کے خلاف قومی خزانے میں اپنے فرنٹ مین کے ذریعہ خوردبرد کیا ہے۔
وزیر برائے اینٹی کرپشن اور اسپورٹس محمد بخش خان مہر
محمد بخش خان مہر تجربہ کار سیاست دان ہیں جو مئی 2013 سے مئی 2018 تک سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، اگست 2016 میں، انہیں وزیر اعلیٰٰٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا اور انہیں سندھ کا صوبائی وزیر برائے کھیل مقرر کیا گیا، 19 اگست 2018 کو انہیں وزیر اعلیٰٰٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا، 20 اگست 2018 کو انہیں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے صنعت و تجارت مقرر کیا گیا، 15 اکتوبر 2018 کو انہیں کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کا اضافی وزارتی قلمدان دیا گیا، انہوں نے یکم اگست 2019 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بھی حلف اٹھایا۔
وزیر بلدیات اور پبلک ہیلتھ سعید غنی
سعید غنی 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر سینیر منتخب ہوئے تھے، جولائی 2017 میں، انہوں نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے سینٹ سے استعفیٰ دے دیا، وہ جولائی 2017 سے سعید غنی رکن صوبائی اسمبلی بنتے چلے آرہے ہیں، 19 اگست کو انھیں وزیر اعلیٰٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا اور انھیں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور دیہی ترقی اور کچی آبادیوں کے اضافی وزارتی دی گئیں، اگست 2019ء کو انہیں سندھ کا صوبائی وزیر محنت، اطلاعات اور آرکائیو مقرر کیا گیا, 5 اگست 2021ء کو انہیں دوبارہ وزیر اطلاعات سندھ مقرر کیا گیا اور بعد میں ان کی جگہ سید سردار علی شاہ وزیر بنے۔
صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو
جام خان شورو 2013 میں حلقہ PS-47 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر پہلی بار سندھ اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے، جون 2013 میں انھیں وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اپنی کابینہ میں شامل کیا اور انہیں سندھ کا صوبائی وزیر برائے لائیو اسٹاک اور ماہی گیری بنایا گیا، جولائی 2016 میں بھی وہ وزیر اعلیٰٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صوبائی کابینہ میں شامل تھے اور انھیں سندھ کا صوبائی وزیر برائے مقامی حکومت بنایا گیا۔
وزیر جیل خانہ جات علی حسن زرداری
علی حسن زرداری ٹھٹھہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، پہلی بار 2018 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے انکے خلاف نیب نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس بنایا جس بعد ازاں نیب نے علی حسن زرداری و دیگر کیخلاف انکوائری بند کرنے سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا اور پراسیکیوٹر نیب نے موقف دیا کہ ناکافی شواہد کی بناء پر علی حسن زرداری و دیگر کے انکوائری بند کردی گئی ہے، علی حسن زردای پہلی بار صوبائی کابینہ کا حصہ بنیں گے۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بہن ہیں اور سابق ممبر قومی اسمبلی ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر صحت رہی ہیں، عذرہ پیہچوہو شہید ذولفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی چانسلر بھی رہی ہیں۔
صوبائی وزیر ثقافت سید ذوالفقار شاہ
سید ذوالفقار شاہ پہلی بار سنہ 2018 کے عام انتخابات میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کا 5 سالہ دور خبروں کی زینت اس وقت بنا جب ان کا نام مشہور ٹک ٹاکر حریم شاہ کے ساتھ منسوب کیا گیا معاملہ اتنا سنجیدہ ہوا کہ انہیں خود اس بات کی تردید کرنی پڑی کہ ان کا حریم شاہ سے کوئی تعلق نہیں ہے
سید ذوالفقار شاہ پر حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے دوران مہم میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے اور کچھ دن زیر علاج بھی رہے۔ پولیس کی مطابق ان کی گاڑی پر 6 گولیاں داغی گئی تھیں۔