امریکی سینیٹ کے رہنما اور جو بائیڈن کے اعلیٰ ترین اتحادی چک شومر نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے غزہ پر حملے سے نمٹنے کے حوالے سے اختلاف کرتے ہوئے اسرائیل سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے، کیپیٹل ہل میں ان کے حالیہ اسرائیل مخالف تبصروں نے ان کی حکمران جماعت اور اتحادیوں کو پریشانی سےدوچار کردیا ہے۔
مزید پڑھیں
ڈیموکریٹک سینیٹ کے اکثریتی رہنما اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اعلیٰ ترین یہودی عہدیدار چک شومر کا اختلاف رائے اس وقت سامنے آیا ہے، جب وہ قانون سازوں پر اسرائیل، یوکرین اور تائیوان کے لیے فوجی امدادی پیکج منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، یہ وہی ممالک ہیں جنہیں صدر جو بائیڈن نے امریکی قومی سلامتی کی ترجیحات میں شامل قرار دیا ہے۔
سینیٹ کے ایوان سے اپنے ریمارکس میں، چک شومر نے کہا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی سیاسی بقاء کو اسرائیل کے بہترین مفادات پر فوقیت دے کر اپنا راستہ کھو چکے ہیں۔ ’ عالمی تنہائی کا شکار ہونے کی صورت میں یقیناً اسرائیل کو اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہوگا۔‘
اسرائیلی حکومت میں انتہائی دائیں بازو کے عہدیداروں کی شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے، سینیٹر چک شومر نے کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کو برداشت کرنے کے لیے بہت زیادہ تیار ہیں، جو دنیا بھر میں اسرائیل کی حمایت کو تاریخی پستی کی طرف دھکیل رہا ہے.
اسرائیلی حکمراں لیکوڈ پارٹی نے وزیر اعظم کی عوامی حمایت کا دفاع کرتے ہوئے، اپنے ایک بیان میں، امریکی سینیٹر چک شومر کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ’بنانا ری پبلک‘ نہیں ہے۔
’شومر کے الفاظ کے برعکس، اسرائیلی عوام حماس پر مکمل فتح کی حمایت کرتے ہیں، فلسطینی دہشت گرد ریاست کے قیام کے لیے کسی بھی بین الاقوامی حکم نامے کو مسترد کرتے ہیں، اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی کی مخالفت کرتے ہیں۔‘
لیکوڈ پارٹی کے مطابق سینیٹر چک شومر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل کی منتخب حکومت کا احترام کرتے ہوئے اسے کمزور نہیں کریں گے۔ ’یہ ہمیشہ سچ ہوتا ہے، اور جنگ کے وقت میں اس سے بھی زیادہ۔‘
چک شومر کے اظہار خیال کے فوراً بعد ریپبلکن سینیٹ کے اقلیتی رہنما مچ مِک کونل نے بھی لیکوڈ پارٹی جیسا ہی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل امریکا کی کالونی نہیں ہے جس کے رہنما واشنگٹن میں برسرِ اقتدار پارٹی کی خوشنودی سے کام کرتے ہیں۔
’صرف اسرائیل کے شہریوں کو یہ کہنا چاہیے کہ ان کی حکومت کون چلاتا ہے۔۔۔یا تو ہم ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، یا ہم ان کی جمہوریت کی بے عزتی کرتے ہیں۔‘
امریکی ایوان کے ریپبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے، جنہوں نے سینیٹ میں فوجی امدادی پیکج کی منظوری کے باوجود ووٹنگ کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے، سینیٹر چک شومر کے ریمارکس کو ’انتہائی نامناسب‘ قرار دیتے ہوئے ان پر اسرائیلی سیاست میں ’تفرقہ انگیز کردار‘ ادا کرنے کا الزام عائد کیا۔
سینیٹر چک شومر کی اپیل غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں پر صدر بائیڈن کے ڈیموکریٹک اتحادیوں میں بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان سامنے آئی ہے، جو کہ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، حال ہی میں 30 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، ان کی اسی اسرائیل نواز پوزیشن کے نتیجے میں ایک ملکی ردعمل نے جنم لیا، جنگ مخالف مظاہرین نے ان کی تقاریر میں خلل ڈالا اور ہزاروں لوگوں نے ڈیموکریٹک پرائمریوں میں احتجاجی ووٹ کاسٹ کیے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں عارضی جنگ بندی کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کے زیر قبضہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ہوگی، امریکی طیاروں نے رواں ماہ غزہ میں انسانی امداد کے ہوائی پیکج گرانا شروع کردیے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی فوج سمندری راستے سے غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے ایک گھاٹ تعمیر کرے گی، کیونکہ انسانی ہمدردی کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس علاقے کو جلد ہی قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سینیٹر چک شومر نے حماس کے حملے کے چند دن بعد اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے خود کو اسرائیلی حکومت کے ایک مضبوط اتحادی کے طور پر کھڑا کیا تھا لیکن ان کی سوچ کتنی بدل گئی ہے، اس کا اندازہ ان کے اس جملے سے ہوتا ہے۔
’نیتن یاہو کی مخلوط حکومت 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے، دنیا اب یکسر بدل چکی ہے، اسرائیلی عوام کا گلا ایک ماضی میں پھنسے حکمرانی کے تصور سے گھونٹا جارہا ہے۔‘
امریکی سینیٹر چک شومر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو، جو طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے رہے ہیں، امریکا کے تعاون سے ’دو ریاستی حل‘ پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں میں شمار کیا ہے، جس میں ان کے مطابق دائیں بازو کے اسرائیلیوں سمیت حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شامل ہیں۔
سینیٹر چک شومر کا کہنا ہے کہ امن کی راہ میں حائل یہ چار رکاوٹیں ہیں اور اگر ہم ان پر قابو پانے میں ناکام رہے تو اسرائیل اور مغربی کنارے اور غزہ اسی پرتشدد حالت میں پھنس جائیں گے جس کا وہ گزشتہ 75 سالوں سے تجربہ کر رہے ہیں۔