ہفتہ کے روز شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں آئی ایس پی آر کے مطابق 7 فوجی اہلکار شہید ہوئے اور 6 حملہ آور دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردوں کے اس حملے میں 5 فوجی اہلکار شہید ہوئے جبکہ کلیئرنس آپریشن میں 2 فوجی افسران جن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک کیپٹن بھی شہید ہوگئے۔
پاکستان کا شمار دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں صف اوّل میں شمار ہوتا ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب ‘Growth and Inequality -Agenda for Reforms’ میں لکھا ہے کہ نائن الیون سے لے کر 2018 تک پاکستان کو دہشت گردی کی اس جنگ میں 252 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جس میں سے 179.1 ارب ڈالر کا ان ڈائریکٹ اور 72.7 ارب ڈالر کا براہِ راست نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جبکہ دہشت گردی کی اس جنگ میں کتاب کے مطابق 70 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کا جانی نقصان ہوا۔ یہ نقصان کسی بھی ملک کے حساب سے ایک بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہے لیکن اس کے باوجود بھی نہ تو دنیا پاکستان سے مطمئن ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے واقعات کا مکمل طور پر خاتمہ ہوسکا ہے۔
اس قدر قربانیوں اور جانی و مالی نقصان کے باوجود بھی پاکستان میں دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا۔ بہت سے لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر پاکستانیوں کی اس دہشت گردی سے کب جان چھوٹے گی اور کب پاکستان امن کا گہوارا بنے گا۔
پاکستان میں دہشت گردی سے کب اور کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے اس کے لیے ہمیں 2 جہتی پالیسی اپنانا ہوگی۔ ہمیں اندرونی محاذ پر اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئی اسٹریٹیجی مرتب کرنا ہوگی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی فرنٹ پر بھی پہلے سے مسلط حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اگر ہم اس کا بغور جائزہ لیں تو کہیں نہ کہیں اس کی وجوہات میں vacuum environment کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اکثر ممالک غلطی یہ کر جاتے ہیں کہ اس environment اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اہم سیکیورٹی بڑھا دیتے ہیں۔ اور سیکیورٹی بڑھانے کے عمل کو ہی اہم corrective measure سمجھ لیتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی صورت درست حکمت عملی نہیں۔ اگر دہشت گردی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو ہمیں دہشت گردوں کو ملنے والے اس vacuum environment اور دہشت گردوں کے لیے نرسریوں کا کام دینے والے اس نظام میں تبدیلی لانا ہوگی۔
ہمیں ان علاقوں میں جہاں دہشت گردوں کو enabling environment یا breeding grounds ملتے ہیں وہاں اپنے سوشل سسٹم میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔ اگر قبائلی علاقوں کے لوگوں سے آپ بات کریں تو ان کے پاس آپ کے ہر سوال کا ایک کاؤنٹر سوال ہوتا ہے مثلا وہ جرگہ سسٹم کو انصاف کی فراہمی کا ایک مثالی نظام سمجھتے ہیں جہاں فوری انصاف ملتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ملک میں رائج عدالتی نظام میں 20،20 سال تک بھی مقدمے کا فیصلہ نہیں ملتا۔ اسی طرح ان قبائلی علاقوں میں جب لوگوں سے بات کریں تو وہ پوچھتے ہیں آپ نے یہاں کے لوگوں کے لیے کیا ایسے اقدامات کیے ہیں کہ جس سے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے؟ کسی حد تک ان کے یہ سوالات درست ہیں۔
فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے باوجود بھی وہاں نہ معاشی اور نہ ہی انتظامی سطح پر بہتری آئی ہے۔ فاٹا کے قبائلی اسٹیٹس کے بعد یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ یہاں پر سینکڑوں ارب روپے سے ترقیاتی منصوبے لگائے جائیں گے۔ ان وعدوں کا کیا بنا؟ اگر حکومت اس حوالے سے واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلا کام جو اسے کرنا چاہیے وہ یہ کہ ان قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ جب اختیارات اور اقتدار ایک گلی محلے کی سطح تک منتقل ہوگا تو بلدیاتی منتخب نمائندے گلی محلے لیول تک عوام کو جوابدہ ہوں گے۔ یہ بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی کے بجائے جماعتی ہونے چاہیئیں تاکہ ان علاقوں کو قومی سیاسی دھارے میں لایا جا سکے۔
جب عوام کے مسائل گلی محلے کی سطح پر حل ہونے لگیں گے۔ علاقے میں ترقی اور عوام میں خوشحالی آئے گی تو دہشت گردوں کو breeding grounds میسر نہیں آئیں گے اور اس طرح ہم اس دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی فرنٹ پر بھی ہمیں اپنی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔ خاص طور پر افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے حالیہ وقتوں میں جو تعلقات میں ایک تعطل آیا ایک بار اس حوالے سے پاکستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایک واضح حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
جب تک دہشتگردی کو ہم صرف سیکیورٹی بڑھا کر ختم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنا سوشل آرڈر ٹھیک کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہوجائے گا۔