غزہ میں نسل کشی میں ملوث جنوبی افریقہ کے شہریوں کی گرفتاری کا حکم

پیر 18 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک کے شہری جو غزہ میں اسرائیل کی مسلح افواج کے ہمراہ لڑتے ہیں انہیں واپسی پر گرفتار کر لیا جائے گا، جس سے جنوبی افریقہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات عائد کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خلیج مزید بڑھ جائے گی۔

وزیر خارجہ نالیدی پانڈور نے اس ہفتے کے شروع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے منعقدہ ایک مظاہرے کے دوران تبصرہ کیا جس میں جنوبی افریقہ کی حکمراں افریقن نیشنل کانگریس یعنی اے این سی کے نمائندوں نے شرکت کی۔

وزیر خارجہ نے اپنے شہریوں کو اسرائیل کے حامی ان 5 ملکوں کے سفارتخانوں کے باہر مظاہرہ کرنے کی بھی ترغیب دی، جو  غزہ میں اس کی فوجی کارروائی کا دم بھرتے ہیں، تاہم انہوں نے خاص طور پر کسی ملک کا نام نہیں لیا، حالانکہ یقینی طور پر ان ممالک سے ان کی مراد امریکا، برطانیہ اور جرمنی تھے۔

نالیدی پانڈور نے زوردار تالیوں کی گونج میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی جنوبی افریقیوں کو خبردار کرنا شروع کر دیا ہے جو اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ’ہم تیار ہیں، جب آپ گھر لوٹیں گے تو ہم آپ کو گرفتار کر لیں گے۔‘

دسمبر میں جنوبی افریقی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ حکومت کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس کے کچھ شہری یا مستقل رہائشی غزہ میں لڑنے کے لیے اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں شامل ہوئے ہیں، وزارت خارجہ نے خبردار کیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کے اسلحہ کو کنٹرول کرنیوالے قوانین کے تحت انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔

 

محکمہ خارجہ نے مزید خبردار کیا تھا کہ جنوبی افریقہ اور اسرائیل کی دوہری شہریت رکھنے والے افراد کی جنوبی افریقہ کی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے، وزیر خاجہ نالیدی پانڈور کے حالیہ بیانات حکومتی موقف کے واضح طور پر سخت ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ غزہ کی موجودہ جنگ میں جنوبی افریقہ کے کتنے شہری اسرائیل کے لیے لڑے ہیں، تاہم جنوبی افریقہ میں تقریباً 70 ہزار افراد کی ایک قابل ذکر یہودی آبادی ہے، جنوبی افریقہ کی حکومت نے موجودہ جنگ سے قبل بھی فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیل پر تنقید کی ہے۔

یہ معاملہ حکمران اے این سی پارٹی اور بہت سے جنوبی افریقیوں کے دل کے قریب ہے جو برسوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں، جو جبری نسلی علیحدگی اور جبر سے نشان زدہ رہا ہے، غیر سفید فام لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے کرتے رہے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف نسل کشی کے ایک تاریخی مقدمے کا جشن منانے کے لیے لوگ فلسطینی پرچم اٹھائے 10 جنوری کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں جنوبی افریقہ کے آنجہانی صدر نیلسن منڈیلا کے مجسمے کے گرد جمع ہیں۔ (فائل فوٹو)

اسرائیل جنوبی افریقہ کے اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ اس نے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں پر نسل پرستی کی ایک شکل کا اطلاق کیا ہے، اسرائیل نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے جنوبی افریقہ کے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اس مقدمہ کے فیصلے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

اسرائیل نے جواب میں جنوبی افریقہ پر حماس کے عسکریت پسند گروپ کا نمائندہ ہونے کا جوابی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 12 سو کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک جبکہ 250 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک اب تک 31 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے، ساحلی علاقوں کے 23 لاکھ باشندوں میں سے بیشتر کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا جو ایک انسانی تباہی کا باعث بنا، لاکھوں فلسطینی قحط کے دہانے پر ہیں۔

جنوبی افریقی وزیر خارجہ نالیدی پانڈور نے اس ہفتے کے فلسطینی یکجہتی ڈنر کے شرکاء سے کہا تھا کہ وہ ’نسل کشی بند کرو‘ جیسے نعروں پر مشتمل پوسٹرز بنائیں اور اسرائیل کے 5 بڑے اہم حمایتی ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر احتجاج کریں۔ ’صرف اس ڈنر پر مت آئیں، فلسطین کے لوگوں کی حمایت میں بھی نظر آئیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp