سائنسدانوں نے ایک نئی قسم کا ہائبرڈ فوڈ تیار کیا ہے جس کے تحت’گوشت دار‘ چاول اگائے ہیں جو ان کے مطابق پروٹین کا ایک سستا اور ماحول دوست ذریعہ ثابت ہوں گے۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ چاول لیبارٹری میں بیف کے پٹھوں اور چربی کے خلیوں کے ساتھ ملاکر اگائے گئے ہیں۔ چاولوں پر پہلے مچھلی کی جیلاٹین لیپ لگایا گیا تاکہ گائے کے گوشت کے خلیات اس سے چپک سکیں اور پھر بیجوں کو ڈش میں 11 دن تک کلچر کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ کھانا قحط، فوجی راشن اور مسقتبل میں خلائی خوراک کے لیے بھی کام آسکے گا۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اسے مارکیٹ کیے جانے کی صورت میں کیا عام صارفین بھی یہ لینا پسند کریں گے۔
ہائبرڈ چاول عام چاولوں کے مقابلے میں قدرے سخت ہوگا لیکن اس میں پروٹین خاصی مقدار میں ہوگی۔
جنوبی کوریا کی یونسی یونیورسٹی کی ٹیم کے مطابق اس میں 8 فیصد زیادہ پروٹین اور 7 فیصد زیادہ چکنائی ہوتی ہے۔
محقق سوہیون پارک کا کہنا ہے کہ ہم عام طور پر مویشیوں سے پروٹین حاصل کرتے ہیں لیکن مویشیوں کی پیداوار میں بہت سارے وسائل اور پانی خرچ ہوتا ہے اور بہت ساری گرین ہاؤس گیس خارج ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاول میں پہلے سے ہی اعلیٰ غذائیت کی سطح موجود ہوتی ہے لیکن مویشیوں کے خلیات کو شامل کرنے سے اسے مزید فروغ مل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے توقع نہیں تھی کہ چاول میں خلیات اتنے اچھے طریقے سے بڑھیں گے، اب میں اناج پر مبنی اس ہائبرڈ خوراک کے امکانات کی ایک دنیا دیکھ رہی ہوں‘۔
’لوگوں کو قائل کرنے کی ضرورت ہوگی‘
ایسا لگتا ہے کہ چاول گوشت کے خلیوں کو بڑھنے کے لیے ایک سہارا یا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور انہیں غذائی اجزا بھی فراہم کرتا ہے۔
یہ ٹیم لیبارٹری میں تیار کی جانے والی یا کاشت شدہ گوشت کی مصنوعات کو دریافت کرنے والی پہلی ٹیم نہیں ہے۔
سنہ2013 میں لندن میں پہلی بار لیبارٹری سے تیار کیے جانے والے برگر کے بعد سے دنیا بھر کی درجنوں کمپنیاں سستا کاشت شدہ گوشت مارکیٹ میں لانے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔
سنگاپور نے حال ہی میں صارفین کو دنیا کی پہلی کاشت شدہ چکن کی مصنوعات فروخت کرنا شروع کی ہیں۔
دریں اثنا اٹلی نے ملک کی غذائی روایات کے تحفظ کے لیے لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت پر پابندی کے بل کی حمایت کی ہے۔
تاہم اٹلی کے اس اقدام کے ناقدین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت کے بارے میں کچھ بھی مصنوعی نہیں ہے اور یہ قدرتی خلیات کی افزائش سے بنایا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے ایگری فوڈ اور کلائمیٹ اسپیشلسٹ پروفیسر نیل وارڈ کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیق مستقبل میں صحت مند اورزیادہ ماحول دوست موافق غذا ہوگی لیکن کچھ لوگوں کو اس کے لیے قائل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی لاگت اور آب و ہوا کے اثرات سے متعلق اعداد و شمار بھی بہت مثبت نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ غذا پراسس شدہ گوشت کی جگہ بھی لے سکتی ہے۔
برٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن سے بریجٹ بینیلم نے کہا: “ایک ایسی خوراک تیار کرنا جو انسانوں اور کرہ ارض دونوں کے لیے صحت کو سہارا دے، ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ تحقیق غذائی قلت کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس چاول میں پروٹین میں نسبتاً کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لہٰذا اگر اس ٹیکنالوجی کو روایتی جانوروں کی مصنوعات کے متبادل پروٹین کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہوگی۔