آپ کی زندگی کا سب سے حسین اور یاد گار دور کون سا تھا؟
غالب گمان ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے، معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے مرد وعورت سے اگر یہ سوال پوچھا جائے تو اکثریت کا یک لفظی جواب ’بچپن‘ ہو گا۔
بچپن کے ذکر کے ساتھ ہی یادوں کی ایک پٹاری کھل جاتی ہے۔ جس سے اس دور کی معصوم شرارتوں، دوستوں ، ہم جولیوں کے ساتھ ہنسی اور کھیل میں گزرے وقت، والدین کے سامنے رکھی گئی معصوم خواہشوں، اسکول کی چھٹیوں اور سب سے بڑھ کر فرصت کے ان لمحات کی دھندلی سی تصویریں نکل کر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔
انہیں تصویروں میں یادوں کے کچھ عکس ایسے بھی دکھائی دیتے ہیں جو تصور کی نگاہوں کو بھلے نہیں لگتے۔ جب کسی دوسرے بہن، بھائی کی شرارت پر ڈانٹ ہمیں پڑی، جب اپنا پسندیدہ کارٹون پروگرام محو ہو کر دیکھ رہے تھے تو کسی بڑے نے آ کر اچانک ٹی وی بند کر دیا۔ جب عید کے لیے کپڑے خریدتے وقت ہمارے انتخاب کو نظر انداز کر کے کسی اور بہن یا بھائی کی پسند کو فوقیت دی گئی۔
جب کسی معصوم کام یابی پر والدین نے شاباش نہیں دی اور ہماری دانست میں اس سے کہیں کم درجے کی کارکردگی پر دوسرے بہن یا بھائی کی اس سے کہیں زیادہ تعریف و ستائش ہوئی، کسی کم زوری یا غلطی کے سرزد ہونے پر والدین ، گھر کے بزرگوں یا اساتذہ کی طرف سے تحقیر آمیز سلوک اور کسی دوسرے بچے سے موازنہ کیا جانا۔
بظاہر تو یہ سب بہت معمولی باتیں ہیں لیکن شخصیت کے پردے پر ان کا عکس کبھی دھندلا نہیں ہوتا۔ بلکہ یادوں کی پٹاری جب بھی کھلے، یہ ایک بھیانک عفریت کی مانند اس سے نکل کر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ایسی یادوں کو “فاسٹ فارورڈ” کرتے ہوئے دوبارہ انہی خوش نما مناظر پر ارتکاز کیا جائے جو وقت کی دھوپ میں دھندلاتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنا اسکول کا وقت یاد آتا ہے۔ دس، گیارہ برس کی وہ عمر جب بچوں کی ہاہمی دوستیاں کھیل کود سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسے پر استوار ہونے لگتی ہیں۔
سانولی رنگت، الجھے ہوئے بالوں اور بڑی بڑی خاموش آنکھوں والی میری سہیلی جس کا تعلق معاشی طور پر ایک خوش حال گھرانے سے تھا مگر اسے اپنے خاندان سے کچھ ایسی ہی شکایتیں تھیں۔ اسے یقین تھا کہ گھر میں کوئی بھی اس سے پیار نہیں کرتا۔
اسے اپنی بڑی بہن سے نفرت تھی. اسے وہ پرانے کپڑے، جوتے اور سکول یونیفارم پہننے کو کہا جاتا ہے جو اب بڑی بہن کو چھوٹے ہو چکے ہیں۔ اسے اپنے باپ سے سخت شکوہ تھا جو بازار جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو تو ساتھ لے جاتے، کھانے پینے کی چیزیں دلا دیتے مگر اسے کبھی ساتھ لے کر نہیں گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ جانے کی ضد کرتی مگر وہ ہمیشہ اسے روتا ہوا چھوڑ جاتے۔ اسے اپنی ماں سے سخت شکوہ تھا جو اسے ایک تضحیک آمیز نام سے بلاتی جسے سن کر سب لوگ ہنسنے لگتے تھے۔
اسے خدا سے بھی شکایت تھی جس نے اسے ایک ایسے گھر میں پیدا کیا جہاں کسی کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں اس کا ہونا یا نا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اپنے معصوم دل میں بسے اس کرب کو چھپانے کے لیے کبھی وہ روتی، کبھی خود کی جان لینے کے ارادے کا اظہار کرتی، مگر اس کم زور لڑکی میں یہ حوصلہ نہیں تھا۔ شاید ایسی ہی کسی خواہش کے زیر اثر وہ اکثر تیز نوکیلی پنسل کو اپنی بائیں کلائی میں اس زور سے چبھوتی کہ خون کی ننھی بوندیں دکھائی دینے لگتیں اور کبھی اپنے جسم پر اپنے ہاتھوں لگائے ایسے ہی زخموں کو اس امید سے دکھاتی کہ کہیں سے ہم دردی کے کچھ بول مل جائیں۔
اس واقعے کو برسوں گزر چکے، میں نہیں جانتی کہ الجھے بالوں اور بڑی، بڑی خاموش آنکھوں والی وہ لڑکی اب کہاں اور کس حال میں ہو گی۔ لیکن اس کی چلاتی ہوئی خاموش کہانی اب بھی میری سماعتوں میں گونج رہی ہے۔
چند روز پہلے، حیدر آباد میں ایک گیارہ سالہ بچی نے اپنے سکول کی تیسری منزل سے کود کر خود کو اس نا قدری سے آزاد کر لیا جو والدین نا دانستہ طور پر اس سے روا رکھے ہوئے تھے۔ اس بچی کے ہاتھ کا لکھا ہوا آخری خط سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں اس نے اپنے والدین کے ناروا سلوک کی شکایت کرتے ہوئے ان سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن خط کے آخر میں سرخ رنگ سے ایک ٹوٹے ہوئے دل کی تصویر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
خود کشی کے ہر واقعے کی طرح یہ سانحہ بھی یک دم نہیں ہوا۔ یہ کتھا جس کی شروعات ننھا سا دل ٹوٹنے پر آنسوؤں سے ہوئی، معصوم آرزؤں کے قتل سے ہوتی ہوئی خود اذیتی کے مقام سے گزر کر ایک چنگھاڑتی ہوئی خاموشی تک آن پہنچی، جس کی گونج والدین، اساتذہ اور معاشرے کے کانوں میں دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اولاد سے محبت کا دم بھرتے، ان کی خوشیوں کی خاطر اپنی خواہشات کا گلہ گھوٹنے کے دعویدار والدین نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ اولاد کو دنیا میں لانے کا مقصد نسل بڑھانے کی خواہش یا جنسی تلذذ یا پھر بے اولادی سے جڑے معاشرتی دباؤ کے علاوہ اور کیا تھا؟
ایسا کیا ہے جو ہمیں اپنے آس پاس موجود ان معصوم ٹوٹے ہوئے دِلوں کو دیکھنے، پہچاننے اور جوڑنے سے روکتا ہے۔ وہ کون سی رکاوٹ ہے جو ہماری سماعتوں کے بالکل پاس چیختی ، چلاتی اور تھوڑی سی توجہ کے لیے پکارتی خاموشی کو سننے سے روکتی ہے۔