’ان کا کتا ٹامی‘، ٹک ٹاک مغرب کے لیے انا کا مسئلہ یا واقعی خطرہ؟

منگل 19 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چین نے ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق امریکی کانگریس کے ایک بل پر کڑی تنقید کی ہے۔ مجوزہ بل چینی کمپنی کی ایپ ٹک ٹاک کے خلاف سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات پر مبنی امریکا کا ایک تازہ اقدام ہے۔

غیر ملکی میڈٰیا رپورٹس کے مطابق کئی مغربی ممالک میں حکام، سیاست دانوں اور سیکیورٹی اسٹاف پر ٹک ٹاک کو فون میں انسٹال کرنے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

ٹک ٹاک کے بارے میں 3 بڑے سائبر خدشات اور کمپنی کے جواب

ٹک ٹاک پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ’ ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ اس پر کمپنی کا کہنا ہے کہ ایپ کا ڈیٹا اکٹھا کرنا قانون و ضوابط کے عین مطابق ہے۔

ناقدین اکثر ٹک ٹاک پر بھاری مقدار میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس الزام کے ثبوت کے طور پر آسٹریلیائی سائبر کمپنی انٹرنیٹ 2.0 کے محققین کے ذریعے جولائی 2022 میں شائع ہونے والی سائبر سیکیورٹی رپورٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

محققین نے ایپ کے ماخذ کوڈ کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک تفصیلات جمع کرتا ہے جیسے کہ لوکیشن، کون سی مخصوص ڈیوائس استعمال ہو رہی ہے اور اس پر کون سی دوسری ایپس ہیں۔

تاہم سٹیزن لیب کی طرف سے کیے گئے اسی طرح کے ٹیسٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں ٹک ٹاک صارف کے رویے کو ٹریک کرنے کے لیے اسی قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہاں اہم حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر دیگر سوشل میڈیا اور موبائل ایپس بھی یہی کام کرتی ہیں۔

ٹک ٹاک پر دوسرا الزام

ٹک ٹاک پر دوسرا الزام یہ ہے کہ چینی حکومت اس ایپ کو صارفین کی جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ کمپنی مکمل طور پر خود مختار ہے اور اس نے چینی حکومت کو صارف کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا ہے اور نہ ہی کرے گی۔

اگرچہ رازداری کے معاملے میں یہ خدشہ ماہرین کو پریشان کرتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نجی ڈیٹا کا ایک بڑا حصہ حوالے کرنا وہ معاہدہ ہے جو ہم سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ کرتے ہیں۔

ہمیں اپنی خدمات مفت دینے کے بدلے میں وہ ہمارے بارے میں معلومات اکٹھا کرتے ہیں اور اسے اپنے پلیٹ فارم پر اشتہارات بیچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا انٹرنیٹ پر ہمیں کسی اور جگہ اشتہار دینے کی کوشش کرنے والی دیگر فرموں کو ہمارا ڈیٹا بیچتے ہیں۔

’ہمارا کتا کتا، ان کا کتا ٹامی‘

ٹک ٹاک کے ساتھ ناقدین کا جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ یہ بیجنگ میں قائم ٹیک کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے جو اسے ایک غیر امریکی مین اسٹریم ایپ کے طور پر منفرد بناتی ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور یوٹیوب اور سبھی ایک جیسی مقدار میں ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں لیکن یہ سب امریکا کی قائم کردہ کمپنیاں ہیں۔

گو امریکی قانون سازوں نے باقی دنیا کے بیشتر حصوں کے ساتھ اعتماد کی سطح کو سنبھالا ہوا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کو مذموم وجوہات کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا جس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے سنہ 2020 کے ایگزیکٹو آرڈر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ٹِک ٹِک کا ڈیٹا اکٹھا کرنے سے چین کو ممکنہ طور پر وفاقی ملازمین اور ٹھیکیداروں کے مقامات کا پتا لگانے، بلیک میل کرنے کے لیے ذاتی معلومات کے ڈوزیئر بنانے اور کارپوریٹ جاسوسی کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

ٹک ٹاک سے خطرہ، خیال یا حقیقت؟

اب تک شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک نظریاتی خطرہ ہے لیکن سنہ 2017 میں منظور ہونے والے چینی قانون کے ایک مبہم حصے کی وجہ سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

چین کے قومی انٹیلی جنس قانون کے آرٹیکل 7 میں کہا گیا ہے کہ تمام چینی تنظیموں اور شہریوں کو ملک کی انٹیلی جنس کوششوں کے ساتھ سپورٹ، مدد اور تعاون کرنا چاہیے۔

اس جملے کا حوالہ اکثر لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہے جو نہ صرف ٹک ٹاک بلکہ تمام چینی کمپنیوں کے معاملے میں تشکیک کا شکار ہیں۔

ٹک ٹاک گُھنا ہے، یہ جتنا زمین کے اوپر اتنا زمین کے نیچے ہے، ناقدین

ناقدین ٹک ٹاک کو ‘ٹروجن ہارس‘ (مصنوعی گھوڑے) سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بظاہر بے ضرر نظر آتا ہے لیکن تنازعہ کے وقت یہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر ثابت ہو سکتا ہے

ٹک ٹاک پر تیسرا الزام

ٹک ٹاک پر تیسرا بڑا الزام یہ ہے کہ اس ایپ کو ‘برین واشنگ’ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس الزام کے جواب میں کمپنی کا استدلال یہ ہے کہ اس کی کمیونٹی کے رہنما خطوط صارفین کو نقصان پہنچانے والی غلط معلومات کی روک تھام کرتی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں اس ایپ پر پہلے ہی پابندی عائد ہے جس نے سنہ 2020 میں اس ایپ اور درجنوں دیگر چینی پلیٹ فارمز کے خلاف کارروائی کی تھی۔

لیکن امریکی پابندی کا ٹک ٹاک پر بہت بڑا اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ عام طور پر امریکی اتحادی اکثر ایسے فیصلوں میں امریکا کی پیروی کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp