وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئندہ بھی ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
آج وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ نئے پروگرام کی بات خوشی کے ساتھ نہیں بلکہ مبجوری کے تحت کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی معاشی بنیادوں کو بحال کرکے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے اور قرضوں سے جان چھڑانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جتنے بھی ممالک کے سفیروں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں ان میں یہی کہا کہ پاکستان ان ممالک کے ساتھ زراعت، معدنیات، صنعت و دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے. وزیراعظم نے کہا کہ اس حوالے سے تجاویز پر کام شروع کر دیا گیا ہے. گزشتہ دور حکومت میں بھی اس پر کام ہوا، اب نئے مینڈیٹ کے ساتھ کام کریں گے، قرضے پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں اور اب ہمارا یہی فیصلہ ہے کہ قرضے کم سے کم لیں اور آہستہ آہستہ ان قرضوں سے جان چھڑائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے سرمایہ کاری اور پر امن ماحول بنانا ضروری ہے جس سے ملک میں یکجہتی پیدا ہو، گزشتہ پارلیمنٹ میں چارٹر آف اکانومی پیش کیا، اب یکجہتی کا چارٹر بھی پیش کرنا چاہیے کیونکہ معیشت اور یکجہتی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2400 ارب روپے کے محصولات کے معاملات ٹریبیونلز یا عدالتوں کے پاس ہیں۔ وزیر قانون سے کہا ہے کہ ان معاملات کے جلد از جلد فیصلوں کے لیے اقدامات کریں۔ چیف جسٹس سے بھی گزارش ہے کہ وہ نوٹس لیں اور تمام ہائیکورٹس کو احکامات دیں کہ ان کا جلد سے جلد میرٹ پر فیصلہ کروائیں۔
ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایف بی آر کو 100 فیصد ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 8 اپریل کو معروف اور تجربہ کار کنسلٹنٹس کی پیشکشیں آ جائیں گی، اپریل کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں کنسلٹنٹس کا تقرر کر دیا جائے گا، جلد از جلد اس پروگرام کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مافیا سالانہ اربوں اور کھربوں روپے قومی خزانے سے لوٹ رہا ہے، وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کو کہا ہے کہ وہ فرض شناس افسران کی فہرستیں بنائیں، جنہوں نے لوٹ مار کی ہے ان کے خلاف فی الفور کارروائی ہوگی، ریکوریوں سے حالات بہتر ہوں گے۔
’شاہانہ اخراجات میں کمی لانا ہوگی‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ شاہانہ اخراجات کے تدارک کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا یہ اخراجات کم کرنا ضروری ہیں، کئی محکمے ایسے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہیں کچھ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دے دیے گئے ہیں جنہیں اب ان کے حوالے کرنا چاہیے، جہاں جہاں اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں، جب اس کمیٹی کی سفارشات آئیں گی تو ان پر عمل کیا جائے گا۔
’سالانہ 400 سے 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے‘
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں سالانہ 400 سے 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے، وزرا سے کہا ہے کہ اس کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، اس حوالے سے کوئی سفارش قبول نہیں ہوگی، تبھی قومی خزانہ بھرے گا، اس پر اگر مجھے بھی قیمت ادا کرنا پڑے تو کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اتحادی حکومت ہے، وفاق اور صوبوں کو مل کر چیلنجز سے نمٹنا ہوگا، صوبائی وزرائے اعلیٰ سے التماس ہے کہ پاکستان کو اقوام عالم میں ممتاز مقام دلوانے کے لیے مل کر کام کریں اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے پروگرام پر بھی گفتگو کرنی ہے، جس کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ضروری ہے اور جو آئی ایم ایف کی شرط بھی ہے، وہ شعبے جو اربوں کا کاروبار کرتے ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایس آئی ایف سی ایک جاندار نطام ہے، اس میں سرخ فیتہ، تاخیری حربے اور نااہلیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، اسے مل کر کامیاب بنانا ہوگا۔
شہدا اور ان کے والدین کو خراج تحسین
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا 70 سے 80 ہزار پاکستانیوں نے جانوں کی قربانیاں دیکر دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا تھا ملگر چند سال پہلے دہشتگردی نے پھر سر اٹھایا، اتنی توانائیاں اور سرمایہ خرچ کرنے کے بعد دہشتگردی کا واپس آنا المیے سے کم نہیں، دوبارہ اس کا سر کچلنے کے لیے ہمارے جوان ہتھیلی پر جان رکھ کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے پاک فوج کے جوانوں اور ان کے ولدین کو خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ کچھ دن پہلے وہ لیفٹیننت سید کاشف شہید اور کیپٹن احمد بدر شہید کے والدین سے ملنے گئے تھے، جہاں ان کے والدین کا کا حوصلہ دیکھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ کیپٹن احمد بدر کے والد نے بتایا کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی 4 بہیں تھیں، بیٹے نے وطن کے لیے جو قربانی دی اس پر فخر ہے، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔
’سرحد پار سے دہشتگری برداشت نہیں کی جائے گی‘
وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے شہدا کے والدین کو یقین دلایا کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان اس کا خاتمہ کرنے کا مکمل عزم رکھتے ہیں اور دہشتگردی کا دوربارہ خاتمہ ہوگا، سرحد پار سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اسے مزید برداشت نہیں کرسکتے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان کی سرحدیں دہشتگردی کے خلاف ریڈ لائن ہیں اور ہم اپنے ہمسایہ برادر ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے چاہتے ہیں، ان کے ساتھ تجارت، کاروبار اور باہمی تعلقات کو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمسایہ ملک کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوگی تو یہ قابل برداشت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ پاکستان کسی بھی حالات میں سرحد پار سے دہشتگردی کو اب برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے گزارش ہے کہ آئیں بیٹھیں اور ملکر دہشتگردی کے خلاف لائحہ عمل تشکیل دیں جس پر ہم سنجیدگی کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ خطے میں امن قائم ہو، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔