امریکا سمیت دیگر ممالک ترقیاتی کاموں کے لیے، ہم قرض کی واپسی کے لیے قرض لیتے ہیں: اسد عمر

جمعہ 22 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے عجیب و غریب بات کی ہے کہ آئندہ ہم قرض نہیں لیں گے، درحقیقت دنیا میں امریکا سمیت بہت سے ممالک قرض لیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقیاتی کاموں کے لیے نہیں بلکہ قرض کی ادائیگی کے لیے قرض لیتے ہیں۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ وہ قرض نہیں لیں گے لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام کرنا ایک ضروری چیز ہے، لیکن اس پروگرام کے ذریعے آپ اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے، اصل بات تو یہ ہے کہ جو ہماری صنعت، زراعت یا انڈسٹری ہے اس کو اٹھانا ضروری ہے، اور دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت کیا اقدامات کرتی ہے۔

’اپریل میں آئی ایم ایف کا نیا پروگرام شروع ہوگا‘۔

سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ بات بہت غور طلب ہے کہ ہم جو قرض لے رہے ہیں وہ ملک کے ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال نہیں ہورہا، بلکہ قرض پر لگے سود کو دینے کے لیے استعمال ہورہا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرانا پروگرام اپریل میں ختم ہو جائے گا اور جب نئے پروگرام میں جانا پڑے گا تو اصل چیلنج اس وقت شروع ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرت میں اتنا مارجن دیا جاتا ہے کہ اگر آپ آئی ایم ایف کو یہ کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے محصولات آپ نے بڑھانے ہیں تو ہم نہیں بڑھائیں گے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے اخراجات پر قابو پانا ہے تو آپ کہیں گے کہ ہم قابو نہیں پائیں گے۔ لیکن مسئلہ یہاں آجائے گا کہ کون سے اخراجات ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

’جمہوریت کو مضبوط کرنا سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے‘۔

ایک اور سوال کہ وزیر خزانہ کو ہمیشہ باہر سے کیوں بلایا جاتا ہے کے جواب میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر بولے کہ نئی حکومت بن گئی ہے جیسے بھی بنی، اب یہ اسی کا کام ہے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا لیں 1958 سے لے کر 1988 تک پاکستان کی تیز ترین ترقی کا دور تھا، ان 30 سالوں میں کسی کو یہ ابہام نہیں تھا کہ فیصلہ ساز کون ہے۔

’جمہوریت اگر کمزور ہے تو اس کو مضبوط کرنا سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔ عوام جس کو مینڈیٹ دے اسی کو اختیار ملنا چاہیے کہ وہ اسمبلی میں جاکر عوام مسائل کا حل تلاش کرے۔ لیکن ہاں اگر کوئی غلط حرکت کرے تو اس کو سزا بھی ہونی چاہیے، سزا کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہونا چاہیے ناکہ فیصلہ سازوں کے پاس۔

سیاست میں میرا کوئی بھی مستقبل نہیں ہے، اسد عمر

انہوں نے بتایا کہ وہ سیاست میں ہمیشہ کے لیے نہیں آئے تھے، اور سیاست میں انکا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ عمران خان نے متعدد بار کہا تو سیاست شروع کی، پالیسی بنانے کے لیے کہا گیا تو 2013 میں یہی کام کیا اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ عمران خان کے کہنے پرہی پارلیمانی سیاست کا حصہ بنا، کچھ سوچ سمجھ کر سیاسی کیریئر میں نہیں آیا تھا بس جتنی ہمت تھی پاکستان کی بہتری کے لیے اتنا کام کیا۔

’سیاست میں نئے لوگ آرہے ہیں اور ہم سے کئی زیادہ بہتر ہیں‘۔

اس وقت ملک میں ادھوری جمہوریت ہے، اسد عمر

اسد عمر نے کہا کہ 100 فیصد درست بات ہے کہ جمہوریت ہی پاکستان کا واحد حل ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جو ووٹ کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ جمہوریت ہماری سوچ کے اندر ہے، لیکن اس وقت ملک میں جمہوریت ادھوری ہے۔

’اس کی ایک مثال یہ بھی دیکھ لیں کہ 2 دسمبر 1988 کو بینظیر نے حلف لیا، اور 26 دن کے بعد آئی ایم ایف کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے، کیونکہ نئی حکومت کو پتا ہی نہیں تھا کہ معاہدہ پہلے سے ہوچکا تھا۔ اس کے بعد سے ایک ہائبرڈ نظام ہے جو بھی حکومت آتی ہے اس کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ وہ 6 مہینے کے بعد حکومت میں ہوں گے یا نہیں ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ کو یہ نہیں پتا کہ اگلے سال آپ کی حکومت ہوگی یا نہیں تو آپ اگلے 10 سالوں کے فیصلے نہیں کرسکیں گے، یہ نجکاری سے 10 گنا زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp