پاکستان آئندہ 5 برسوں میں آئی ایم ایف قرض پروگرام سے کیسے جان چھڑا سکتا ہے؟

منگل 26 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں مختلف حکومتوں نے اپنے ادوار میں بیرون ممالک سے قرض لیے اور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کمزور سے کمزور تر جبکہ قرض کا بوجھ بڑھتا گیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان پر کل قرضہ 81 کھرب 194 ارب روپے تھا۔ گزشتہ ایک سال میں کل قرضے میں 27 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے بھی 13 کھرب 790 ارب روپے کا قرض لے چکا ہے۔

حکومت پاکستان نے رواں مالی سال میں 49 کھرب روپے سے زائد رقم قرض واپسی کی مد میں ادا کرنی ہے، اور اس بڑی رقم میں 30 فیصد تقریباً 15 کھرب سود کی رقم شامل ہے جو کہ قرض کے ساتھ واپس کرنا ہو گی، واضح رہے کہ فائنانس ڈویژن کے مطابق حکومت کی رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں کل آمدن 6 کھرب 854 ارب روپے رہی ہے۔

پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ قرض کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے، آئے روز قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے تناظر میں وی نیوز نے مختلف معاشی ماہرین سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آئندہ 5 سالوں میں آئی ایم ایف قرض پروگرام سے جان چھڑانے کے لیے حکومت کو کیا اقدامات اٹھانا چاہییں۔

حکومت کو اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ قرض پروگرام آئی ایم ایف کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے اور اس پروگرام میں آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دے کر سپورٹ فراہم کر رہا ہے، قرض سے نجات کے لیے حکومت کو اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔

’ایسی اصلاحات تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ جس سے ہماری پیداواری صلاحیت بڑھ سکے، توانائی کے شعبے کی تنظیم نو کرنا ہو گی، سب سے اہم ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا ہو گا، اپنی برآمدات اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو بڑھانا ہو گا، وہ حکومتی اثاثے جو کہ خسارے میں ہیں ان کی نجکاری کرنا ہوگی۔‘

ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق یہ اقدامات کسی بھی حکومت کے لیے بالکل بھی آسان نہیں ہوں گے لیکن اس کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو کہ مقبول یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشی ماہرین پر مشتمل ہو۔

’یہ ٹیم آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بہتر مذاکرات شروع کرے اور حکومت کی ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں معاونت کرے، اگر پاکستان یہ اقدامات خوش اسلوبی سے انجام دے دے تو عین ممکن ہے کہ 5 نہیں 3 سال بعد ہی معیشت سنبھل جائے اور ہمیں آئی ایم ایف قرض پروگرام کی ضرورت ہی نہ پڑے۔‘

ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے

معاشی ماہر خرم شہزاد نے وی نیوز کو بتایا کہ حکومت اگر قرض کے بوجھ سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات متعارف کرائے، سیلز ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور سپر ٹیکس کو کم کیا جائے، اور دوسری جانب زراعت، ریئل اسٹیٹ، ریٹیلرز اور ہول سیل ٹریڈرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے، اسی طرح ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا جائے۔

دیگر ذرائع سے قرض لیا جائے

’توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں، ایسی صنعتوں کی طرف جانا چاہیے جو کہ بجلی کم استعمال کرتی ہوں، بجلی کی پیداوار کے لیے ونڈ اور سولر کا رخ کرنا چاہیے اور آئی پی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے۔ کمرشل بینکوں سے قرض لینے کے علاوہ دیگر ذرائع سے قرض لیا جائے۔‘

معاشی ماہر خرم شہزاد سمجھتے ہیں کہ بینکنگ اور دیگر لین دین کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل کیا جائے، اس سے بیرون ملک سے بھی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ’سرکاری اداروں کی تنظیم سازی کرنی چاہیے اور زیادہ نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا عمل مکمل کرنا چاہیے، اداروں کی تنظیم نو سے مختلف سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔‘

اخراجات کو کم کیا جائے

خرم شہزاد کے مطابق اس وقت حکومتی امور کی انجام دہی میں 600 ارب اور پینشن کے لیے ایک کھرب روپے سے زائد کے سالانہ اخراجات ہو رہے ہیں، جنہیں فوری کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ’وزیراعظم، وزرا، وزارتوں، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر سمیت تمام سرکاری اداروں کے اخراجات کو کم کیا جائے، ٹیکنالوجی اور اسمارٹ ورک کے ذریعے اخراجات آدھے ہو سکتے ہیں۔‘

آئی ایم ایف پروگرام سے چھٹکارا انتہائی مشکل ہے

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے آئی ایم ایف پروگرام سے چھٹکارے کو انتہائی مشکل قرار دیا ہے۔ ’ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں اور اشرافیہ نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے وسائل میں نہیں رہنا، جو قوم اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کرے وہ کبھی آئی ایم ایف کے قرض کے بوجھ سے نکل نہیں سکتی۔‘

مہتاب حیدر کے مطابق اگر ہمارے حکمران اور عوام اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرلیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف سے نجات حاصل ہو سکے، سب سے ضروری یہ ہے ہر شخص جس کو ٹیکس دینا چاہیے وہ ٹیکس دے اور پورا پورا ٹیکس دے، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہیں۔

 برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے

’پاکستان کو مختلف ترجیحی شعبوں میں پیداواری صلاحیت بڑھاتے ہوئے اپنی برآمدات کو بہت زیادہ حد تک بڑھانے کی ضرورت ہے، 2004 میں ہمارا برآمدات کا ہدف 10 ارب ڈالر تھا اور ابھی ہماری برآمدات 25 سے 30 ارب ڈالر ہیں۔‘

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ایک سال میں تقریباً 10 ارب ڈالر کی غذائی اشیاء درآمد کی جارہی ہیں، گندم سمیت تمام دالیں، خوردنی تیل پام آئل درآمد کیا جا رہا ہے، چینی بھی دو سال پہلے تک درآمد کی جاتی تھی۔

’اس سب کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں تو ہمیں زراعت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، اگر درآمدات کم سے کم اور برآمدات زیادہ سے زیادہ ہوجائیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا قرض کا بوجھ کچھ کم ہو سکے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp