توپ خانے سے توشہ خانے تک

جمعرات 16 مارچ 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نہ کسی نے کوئی سوال پوچھا، نہ کسی نے کوئی جواب دیا۔ نہ سوشل میڈیا پر میمز بنیں، نہ ٹرول بریگیڈ نے گالیاں دیں۔ نہ جلسوں میں ان کے نام لیے گئے، نہ جلوسوں میں ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ نہ ٹاک شوز میں ان پر ملامت کی گئی، نہ بند کمروں میں ان کی کم ظرفی پر قہقہے برسائے گئے۔ نہ بریکنگ نیوز میں ان کا نام آیا، نہ کسی اخبار کے اداریے میں ان پر سرزنش کی گئی۔ نہ کسی سیاسی شخصیت نے اس بارے میں کوئی بیان دیا، نہ ادارے نے کوئی وضاحت پیش کی۔ سب کچھ ایسی خاموشی سے ہوا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

توشہ خانہ اس وقت قوم کا محبوب موضوع ہے۔ عمران خان نے خانہ خدا کے نقش والی گھڑی کتنے میں بیچی؟ خاقان عباسی نے کس کس تحفے پر ہاتھ صاف کیا؟ نواز شریف نے کون سی گاڑی اپنے نام کروائی؟ شوکت عزیز کیا کیا لے اڑے؟ مریم نواز نے انناس کا ڈبہ کتنے میں خریدا؟ اس وقت ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ توشہ خانہ سے کس نے کیا سمیٹا۔

جونہی کسی سیاستدان کا نام نمایاں ہوتا ہے، اس پر لے دے شروع ہوتی ہے اور بات اگلے ہی لمحے لعن طعن تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا کے جغادری اپنے اپنے قائدین کا دفاع مغلظات سے کرتے ہیں۔ قابلِ نفرین پھبتیاں کستے ہیں۔ چور چور کے نعرے اب دونوں طرف سے لگتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو ڈاکو کہتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیائی جنگجو ملک کے خالی خزانے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو گردانتے ہیں۔ کسی کو توشہ خانہ کے حمام میں سب برہنہ نظر آتے ہیں اور کسی کو یہ لوٹ مچانے والے حسبِ منصب و مرتبہ چور، ڈاکو اور علی بابا دکھائی دیتے ہیں۔

بہت سے شریف لوگ بار بار کیلکولیٹر پر حساب لگاتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی کی کمائی ایک طرف اور ایک گھڑی کی قیمت دوسری طرف ہے۔ ساری زندگی کی مشقت ایک طرف اور کسی فرماں روا کا دیا تحفہ ایک دوسری طرف ہے۔

سیاستدانوں کی اس تضحیک، توہین اور تذلیل کے ہنگام میں کسی کو پتا ہی نہیں چلا کہ ‘وی نیوز’ کے رپورٹر زبیرعلی خان نے خبردی کہ توشہ خانے کے حمام میں فقط سیاستدان ہی ضمیر کی بے لباسی کا مظاہرہ نہیں کر رہے بلکہ کچھ توپ خانے والے بھی اپنی بے توقیری کی داد پا رہے ہیں۔ پستی سی پستی ہے کہ اقبال بھی پکار اٹھے ہیں:

ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل

شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہوگیا

اس خبر کے لیے کسی زیادہ تردّد کی ضرورت نہیں تھی۔ وزیرِاعظم ہاؤس سے جس فہرست کا اجرا ہوا اسی کے اندر ایک کونے پر ان افراد کے نام بھی جلی حروف سے لکھے تھے۔ تحائف کی کُل تعداد 4 ہزار تھی، جن میں سے 400 اعلیٰ افسران کی نذر ہوگئے۔

قصۂ زمین برسرِ زمین ہے کہ کسی نے راڈو گھڑی چند روپلی کے عوض لی، کسی نے 2 ہزار روپے میں بیش قیمت قالین اڑا لیا، کسی نے آئی پیڈ کوڑیوں کے مول وصول کیے۔ کسی نے آئی فون اس قیمت میں حاصل کیا جس قیمت میں نوکیا 3310 بھی نہیں ملتا۔ کسی نے زنانہ ہینڈ بیگ تھاما اور چلتا بنا اور کسی نے توشہ خانہ کو مالِ غنیمت جانا اور بلا قیمت ہی مال سمیٹ لیا۔

خبر بڑی تھی مگر اس پر الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی اس سے بڑی خبر تھی۔ اس پر سب سیاستدانوں کا لب بستہ ہوجانا اس سے بھی بڑی خبر تھی۔ سب صحافیوں کو سانپ سونگھ جانا اس سے بھی بڑی خبر تھی۔ بڑے بڑے دانشور اس خبر کے پاس سے ایسے گزرے جیسے یہ ممنوعہ علاقہ ہو۔ جیسے یہاں پرواز سے پر جلتے ہوں۔ جیسے اس ایشو پر بات کرنے سے نازک دل ٹوٹ جائیں گے۔ شاید کہنے والے نے ایسی ہی کسی صورتحال کا نوحہ کہا تھا:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

المیہ یہ نہیں کہ کسی افسر نے اس فہرست میں اپنا نام شامل ہونے کا جواب نہیں دیا۔ المیہ تو یہ کہ ان ناموں کے بارے میں کسی نے سوال ہی نہیں کیا۔

جس معاشرے میں لوگ سوال کرنا بند کردیں وہاں نہ ذہنی نمو ہوتی ہے نہ معاشی ترقی ممکن ہے۔ ایسے معاشروں میں لوگوں کے سروں پر نادیدہ آہنی سرپوش چڑھ جاتے ہیں۔ جو نہ سر اٹھانے دیتے ہیں نہ ہی سر میں کوئی سودا سمانے دیتے ہیں۔ ان معاشروں میں نہ خودی بچتی ہے نہ خود داری۔ نہ بہادری اثاثہ قرار پاتی ہے نہ دلیری میراث بنتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جس معاشرے کے سروں پر آہنی سرپوش چڑھے ہوں وہ معاشرہ نہیں رہتا شاہ دلہا کا چوہا بن جاتا ہے۔

ایسے معاشروں میں جہاں سوال نہیں ہوسکتا وہاں بزدلی اور خود غرضی جنم لیتی ہے۔ ایسے معاشروں میں شاہ کے درباری پیدا ہوتے ہیں۔ بادشاہوں کو صف بہ صف غلام میسر آتے ہیں۔ جو دست بستہ ہی نہیں ہوتے لب بستہ بھی ہوتے ہیں۔ ایسے سماج میں شاعر پکارتا ہی رہ جاتا ہے:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا

بول کہ جاں اب تک تیری ہے

سوال کرنا کوئی گناہ نہیں۔ استفسار کرنا کوئی جرم نہیں۔ جواب کی توقع نہ بھی ہو تب بھی سوال تو کرنا چاہیے۔ دہشت سے دل لرز رہا ہو تب بھی سوال تو ہونا چاہیے۔ جان ہتھیلی پر ہو تب بھی سوال اٹھانا چاہیے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں سوال اٹھانے والے خود اٹھا لیے جاتے ہیں کیونکہ قلم کا جواب تلوار سے دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم بحیثیت معاشرہ سوال کرنے کی خُو ختم ہوگئی ہے۔ اب جواب ہمارے ’کِیسَہ‘ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ہم سوال سے ہی گریز کرتے ہیں، اجتناب برتے ہیں، پرہیز کرتے ہیں، نظریں چراتے اور منہ چھپاتے ہیں۔

سوال تو یہ بنتا ہے کہ جن کے پاس سارا خزانہ ہوتا ہے ان کو توشہ خانے کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت پڑگئی؟ جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے ان کو توشہ خانہ کے حقیر تحفوں میں کیا دلچسپی پیدا ہوگئی؟ بات صرف اتنی ہے کہ بسا اوقات پیٹ بھر جاتا ہے نیت نہیں بھرتی۔ بعض اوقات بس شرارت میں درخت سے پھل توڑ لیے جاتے ہیں حالانکہ گھر میں فریج فروٹ سے بھرا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کام ضرورت نہیں ہوتے عادت بد بن جاتے ہیں اور عادت بد ہی رہتے ہیں۔

جہاں تک سوال کی بات ہے تو معاشرے کو اگر زندہ رکھنا ہے تو ہر سوال کی اجازت ہونی چاہیے جب تک سوال آئین اور قانون کے تابع ہیں سوال میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ عمران خان کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے پھر گود لینے کے سوال نہیں ہونے چاہئیں۔ ایک دفعہ پھر ہائبرڈ نظام لانے کے سوال نہیں ہونے چاہئیں۔ ایک دفعہ پھر الیکشن لوٹنے کے سوال نہیں ہونے چاہئیں۔ ایک دفعہ پھر آئین کو پیروں تلے روندنے کے سوال نہیں ہونے چاہئیں۔ اس لیے کہ اگر سوالات اس قبیل کے ہوں گے تو جواب دینے والا یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ:

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp