سپریم کورٹ نے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی ساکھ پر سوال اٹھا دیا

جمعہ 22 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار دیدی۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اپنے فیصلہ میں جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ریٹائرڈ جج تصور کرتے ہوئے تمام مراعات ملیں گی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیل سے متعلق کیس کا 23 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سنایا، جسے انہی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو محفوظ کیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت اور چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور دونوں درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ باضابطہ قانونی کارروائی کرکے الزامات کی سچائی سامنے لائی جائے اور اس کے مطابق کارروائی کی جائے، اس معاملے میں انکوائری بہت ضروری تھی کیونکہ نہ تو چیف آف آرمی سٹاف سیکریٹریٹ اور نہ ہی حکومت پاکستان نے الزامات کی سچائی کے بارے میں تحقیقات کی تھیں اور اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی لکھا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملے کی انکوائری کرنی چاہیے۔

تاہم 10 جون 2021 کو حکومت پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان کے آفس کے ذریعے سے ایک بیان سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ جن (فوجی) افسران پر (جسٹس صدیقی کی جانب سے) الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے۔

اس طرح سے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنی ساکھ خراب کی کیونکہ انہوں نے حکومت پاکستان کے پہلے مؤقف کہ تحقیقات ہونی چاہیئں اور دوسرے مؤقف کہ الزامات کی تردید کرتے ہیں، ان 2 مؤقف کے درمیان منطقی تعلق واضح نہیں کیا۔ سابق اٹارنی جنرل نے سپریم جوڈیشل کونسل کو گمراہ کیا جہاں انہوں نے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کوڈ آف کنڈکٹ سے آگے بڑھ کر بھی کسی جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp