پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر نجکاری محمد زبیر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی فیسکو کی نجکاری آخری مراحل میں تھی لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان اداروں کی نجکاری کو روک دیا تھا کیونکہ وہ ان اداروں کی نجکاری کی سیاسی قیمت چکانے پر رضامند نہیں تھے۔
مزید پڑھیں
نجی چینل ’ڈان نیوز‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیسکو کی نجکاری سے متعلق مقامی اور غیرملکی بولی دہندگان کی پیشکشیں بھی آچکی تھیں اور اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے صرف پیشکشوں کو کھولا جانا باقی رہ گیا تھا، اسی طرح اسٹیل ملز کی نجکاری بھی آخری مراحل میں تھی اور اس معاملے پر کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کا آخری اجلاس ہونا باقی تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے اس وقت کہا تھا کہ اسٹیل ملز حکومت سندھ کو دے دیا جائے۔ محمد زبیر نے کہا کہ اسحٰق ڈار اس وقت وزیر خزانہ تھے اور اس کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے، مگر اب ایک وزیر خارجہ ہوتے ہوئے انہیں پھر سے اس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ پی آئی کی نجکاری کے حوالے سے ایک پارلیمنٹری کمیٹی بنائی گئی تھی کیونکہ پی آئی اے کی نجکاری اور پی آئی اے ایکٹ 1955 میں ترامیم کے لیے ہمیں پارلیمنٹ میں ووٹنگ درکار تھی، ہم نے اس پر بہت محنت کی تھی، ہمارے ساتھ عالمی بینکوں، چارٹرڈ اکاؤنٹینسی فرمز، آئی ایم ایف، اسٹاک ایکسیچنز اور دیگر متعلقہ ادارے کام کر رہے تھے مگر اسحٰق ڈار نے صرف اس لیے ان اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دی کیونکہ وہ اس کی سیاسی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
’موجودہ نظام 2018 کے ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام 2018 سے شروع کیا گیا حالانکہ اس نظام کی جمہوریت میں کہیں بھی گنجائش نہیں ہے، یہ ہائبرڈ نظام عمران خان کی حکومت میں ناکام ہوگیا، پاکستان کو اس نظام سے نکلنا چاہیے تھا لیکن ہم دوبارہ اس نظام کی طرف آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ جیسے سینیئر سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ انہیں 2 وزارتوں کی قربانی دینا تھی لیکن آخر میں جب عوام کے پاس جانے کا وقت ہوگا تو اس کا جواب نواز شریف اور شہباز شروف کو دینا پڑے گا۔
محمد زبیر کا کہنا تھا ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہم باہر سے ایک وزیر خزانہ کو لے کر آئے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی واحد پارٹی تھی جو اپنے ہی کسی رہنما کو وزیر خزانہ بناتی تھی اور یہی صحیح طریقہ ہے، سیاسی جماعتوں کا سب سے اہم کام معیشت سنبھالنا ہوتا ہے، وزیر خزانہ اپنی جماعت اور اپنے لیڈر کی سوچ کے مطابق معاشی پالیسی بناتا ہے، مگر یہ کام کرنے کے لیے کوئی اور آجائے تو پھر جب جواب دینے کا وقت ہوگا تب محمد اورنگزیب بھی ویسے ہی چلے جائیں گے جیسے حفیظ شیخ چلے گئے تھے۔
’ناکامی بیانیے اور کارکردگی کی تھی‘
رہنما ن لیگ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ناکام ہوا ہے، 1999 کے بعد والی ن لیگ کو ایک مضبوط جماعت اس لیے تصور کیا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی تھی جس نے یہ کہا کہ جمہوریت میں ہمارا دارومدار عوام پر ہے، جس کو پھر ایک خوبصورت نعرہ دیا گیا ’ووٹ کو عزت دو‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک مضبوط بیانیہ تھا، اسی بیانیے پر رہتے ہوئے نواز شریف نے 2016 اور 2017 میں قربانی دی، وہ آسانی سے سمجھوتہ کرسکتے تھے اور جیل جانے سے بچ سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں ن لیگ نے تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن کر اپنے اس بیانیے کو دفن کیا، اس کے بعد جتنے بھی جلسے کیے اس میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کے گانے کی ساری سی ڈیز توڑ کر کہیں پھینک دی گئیں۔ انہوں نے کہا کارکردگی کی ناکامی اس طرح ہوئی کہ شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ بہت اچھا کام کرتے تھے جس کا فائدہ مرکز میں حکومت کو بھی ہوتا تھا، عدم اعتماد کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ایکسپرٹ ہیں اور کارکردگی دینا جانتے ہیں لیکن 16 ماہ میں وہ سب کچھ بھی تہس نہس ہوگیا، اور جب وہ الیکشن میں گئے تو عوام کو بتانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں ن لیگ نے تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن کر اپنے اس بیانیے کو دفن کیا، اس کے بعد جتنے بھی جلسے کیے اس میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کے گانے کی ساری سی ڈیز توڑ کر کہیں پھینک دی گئیں۔ انہوں نے کہا کارکردگی کی ناکامی اس طرح ہوئی کہ شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ بہت اچھا کام کرتے تھے جس کا فائدہ مرکز میں حکومت کو بھی ہوتا تھا، عدم اعتماد کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ایکسپرٹ ہیں اور کارکردگی دینا جانتے ہیں لیکن 16 ماہ میں وہ سب کچھ بھی تہس نہس ہوگیا، اور جب وہ الیکشن میں گئے تو عوام کو بتانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
’ڈیفالٹ کا بیانیہ گھڑا گیا‘
محمد زبیر نے کہا کہ ملک کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ بیانیہ گھڑا گیا تھا، فروری 2022 میں پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تھے، عدم اعتماد کے بعد جب شہباز شریف کی حکومت آئی اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے 11 ارب ڈالر جبکہ ڈالر 182 روپے کا تھا، اور یہ آج تک دوبارہ واپس نہیں آئے، قومی خزانہ اب بھی 10 ارب ڈالر سے کم ہے، شہباز شریف کی کارکردگی بہت مایوس کن تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں اپوزیشن ہونا ضروری ہے ورنہ تو ملٹری حکومت لگا دی جائے، پاکستان کو مؤثر انداز سے آگے لے جانے کے لیے مؤثر اپوزیشن، آزاد میڈیا اور عدلیہ بنیادی اکائیاں ہیں، سب کا منہ دبا کر آپ سمجھتے ہیں ملک آگے چلے گا تو آپ غلط سمجھتے ہیں۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیر جانبدار انسان کیا اس بات کو مان سکتا ہے کہ 2018 میں سارے غلط کام نواز شریف اور ن لیگ کر رہی تھی اس لیے وہ جیل میں تھے، اور 2024 میں سارے غلط کام عمران خان کر رہا ہے، اس لیے اب وہ جیل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کی پراسیکیوشن ہونی چاہیے نہ کہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، 8 فروری کو جو رزلٹ آئے اس میں سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی نے جیتیں، پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے کروڑوں لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
’جنرل باجوہ سے ملاقاتیں اور خواجہ آصف کو دھمکیاں
محمد زبیر نے بتایا کہ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے کہنے پر جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سے 2 مرتبہ ملے جن میں انہوں نے جنرل باجوہ سے کہا کہ جنرل ایوب سے اب تک جرنیلوں سے سنگین غلطیاں ہوئیں، آپ کے پاس ابھی موقع ہے کہ اپنی غلطی کو درست کریں، آپ عمران خان کی حمایت چھوڑ دیں اور ہمیں سیاسی میدان میں ان کے ساتھ مقابلہ کرنے دیں اور عدالتوں کو آزادی اور خوف کے بغیر فیصلہ کرنے دیں۔
خواجہ آصف کو دھمکیوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے بھی وزیر دفاع رہے اور دعویٰ کرتے رہے کہ ان کے جنرل باجوہ سے اچھے تعلقات ہیں، ، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ دھمکیاں دے رہے ہیں، جس سے ثابت ہوا کہ غلط آدمی پر انحصار کیا گیا تھا۔