مسلمانوں کو آسام میں کیسے ملےگامقامی شہری کادرجہ، سی ایم نے رکھیں کیا شرائط؟

پیر 25 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسام کے وزیراعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بنگالی بولنے والے مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لیے ریاست کے مقامی باشندے بننے کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں۔ سی ایم سرما نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں سے کہا کہ اگر وہ واقعی میں خود کو مقامی شہر ی کا درجہ دلا نا چاہتے ہیں تو انہیں 2 سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنے چا ہییں۔ اس کے علاوہ انہیں تعدد ازدواج یعنی کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی روایت بھی ترک کرنی ہوگی اور اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہوگا۔

وزیراعلیٰ آسام ہمانتا بسوا سرما

آسام میں مسلم آبادی کا تناسب

دراصل، آسام میں جموں و کشمیر کے بعد دوسری سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 34 فیصد ہے، لیکن آسام کی مسلم آبادی 2 مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک گروپ بنگالی بولنے والے اور بنگلہ دیشی نژاد مہاجر مسلمانوں کا ہے جبکہ دوسرا گروپ آسامی بولنے والے مقامی مسلمانوں کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنگالی بولنے والی مسلم آبادی بنگلہ دیش کے راستے آسام آئی ہے۔

مقامی ہونے کا دعویٰ

بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے کے متعلق بات کرتے ہوئے، وزیراعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کہا ہے کہ انہیں 2 سے زیادہ بچے پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور تعدد ازدواج کو روکنا چاہیے، کیونکہ یہ آسامی لوگوں کی ثقافت نہیں ہے۔ نیز یہ کہ نابالغ بیٹیوں کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ بنگالی بولنے والے مسلمان مقامی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔

آسام کی ثقافت کو اپنانے کی شرط

سی ایم سرما نے مزید کہا کہ اگر آپ مقامی کہلانا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے کے بجائے انہیں پڑھائیں ،ڈاکٹر اور انجینئر بنائیں۔ وہ بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا شروع کریں اور انہیں ان کے والد کی جائیداد میں حصہ بھی دیاجائے۔

ان کا کہنا ہے کہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فرق ہے۔ اگر وہ ان طریقوں کو ترک کر دیں اور آسامی لوگوں کی ثقافت کو اپنا لیں تو وہ بھی مقامی شہری بن سکتے ہیں۔

دراصل 2022 میں آسام کی کابینہ نے ریاست کے تقریباً 40 لاکھ آسامی زبان بولنے والے مسلمانوں کو ’دیسی آسامی مسلمان‘ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جن کی بنگلہ دیش سے ہجرت کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ اس طرح وہ اصل باشندے سمجھے جاتے تھے لیکن اس کی وجہ سے ریاست کا مسلم معاشرہ 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ دوسرا حصہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا تھا  جن کا ریاست کی کل مسلم آبادی میں 63 فیصد حصہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp