اداروں کی مداخلت پر بولنے پر ججز نے ساتھ دینے کے بجائے میرا سماجی بائیکاٹ کیا، شوکت عزیز صدیقی

جمعرات 28 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ اب ایک چیز تو پوری طرح سے ثابت ہوچکی ہے کہ ادارے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی سنہ 2018 میں برطرفی کو سپریم کورٹ نے حال ہی میں خلاف قانون قرار دیا ہے۔

وی نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ماضی میں بھی یہ باتیں ہوتی تھیں یعنی الزامات لگتے تھے لیکن کوئی بات نہیں کرتا تھا بلکہ ججز کسی نہ کسی دباؤ یا ترغیب کے لالچ میں سمجھوتا کر لیا کرتے تھے۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’سب سے پہلے اس حوالے سے میں نے بات کی جس کا مجھے خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور ایک طویل جنگ لڑنی پڑی جو بالآخر 22 مارچ 2024 کو ختم ہوئی‘۔

’میری جدوجہد میں ہائیکورٹ ججز نے ساتھ نہیں دیا‘

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے تاٗسف کا اظہار کیا کہ ’جب میں نے یہ بات کی تو میرا کسی ہائیکورٹ جج نے ساتھ نہیں دیا بلکہ میرا سماجی بائیکاٹ کیا گیا لیکن اب اس مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد اسی فیصلے کی روشنی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا ہے‘۔

’سپریم جوڈیشل کونسل درست فورم نہیں‘

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان کی نظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے درست فورم کا انتخاب نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کوئی ایسی حیثیت یا دائرہ کار نہیں جس کی کوئی ایڈوائزری جوریسڈکشن ہو جیسا کہ سپریم کورٹ کی ہے اور ان کی نظر میں ان ججز کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل تو صرف ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کے مقدمات کا جائزہ لیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک چیز ہے کہ انکوائری رولز چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل نوٹیفائی کرتی ہے تو غالباً ان ججوں کے پیش نظر یہ ہو کہ شاید سپریم کورٹ اس معاملے میں انہیں رہنمائی فراہم کر سکے۔

’ہائیکورٹ جج کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے‘

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’ایک ہائیکورٹ جج کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنے حلف کی روشنی میں کیا کرنا ہے لیکن اس سے قبل مجھے مثال بنایا گیا اور ایک اذیت ناک مرحلے سے گزر کر میں سرخرو ہوا‘۔

انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ ججز نے خط لکھ کر بنیادی طور پر چیف جسٹس کو امتحان میں ڈالا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ ججز نے بہت ڈرتے ہوئے یا بہت محتاط انداز میں بات کی ہے۔

کیا ججز کی جانب سے لگائے گئے الزامات ثابت ہو سکتے ہیں؟

اس سول کے جواب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں عمومی نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کی تفصیلات بھی واضح نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرتے ہوئے اور انتہائی محتاط انداز میں بات کی گئی ہے اور گیند چیف جسٹس کے کورٹ میں ڈال دی گئی ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp