عدالت نے سنہ 2020 میں مقبوضہ کشمیر سے غلطی سے سرحد پار کرکے گلگت بلتستان داخل ہونے والے فیروز لون اور نور محمد وانی کو آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں
سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان نے اس حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیروز لون اور نور محمد وانی کی گرفتاری اس وقت ظاہر کی گئی جب سنہ 2020 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین سرحدی تناؤ شروع ہوا اور دونوں کو بھارتی جاسوس قرار دے کر گلگت پولیس نے پریس کانفرنس بھی کردی تھی۔
دونوں بھارتی شہریوں پر ایئرپورٹ تھانہ گلگت میں غیر ملکی شہریوں کے قانون (فارنرز ایکٹ 1946) کے تحت مقدمہ نمبر 24/2020 درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ گریز کے علاقہ بھانڈی پورہ سے غیر قانونی طور پر گلگت بلتستان ضلع استور کے حدود میں داخل ہوئے تھے۔
ابتدائی طور پر ٹرائل کورٹ نے دونوں پر غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کا جرم عائد کرکے سنٹرل جیل گلگت منتقل کردیا تھا اور صوبائی حکومت کو حکم دیا تھا کہ دونوں شہریوں کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت روانہ کردیا جائے جس کی تعمیل کرتے ہوئے محکمہ جیل خانہ جات نے کوٹ لکھپت جیل کو 24 جون 2022 میں ایک تحریری خط بھی لکھ دیا تھا۔
بعد ازاں دونوں ملزمان نے چیف کورٹ (ہائی کورٹ) گلگت بلتستان میں پٹیشن دائر کردی اور پاکستان میں سیاسی پناہ دینے کی درخواست دے دی۔
565/2022 نمبر رٹ پٹیشن پر چیف کورٹ گلگت بلتستان نے ملزمان کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت حوالگی کی حد تک اپیل کی شنوائی کرلی تاہم سیاسی پناہ کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ نہیں دیا جبکہ متاثرین کی جانب سے ریویو پٹیشن کو بھی خارج کردیا گیا۔ جبکہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان 28 مارچ 2013 کے اس فیصلے کو سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کردیا۔
سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کیس پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کے سنہ 1995 کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر سے غلطی سے سرحد پار کرنے والوں کو سیاسی پناہ دینے کا طریقہ وضع شدہ ہے تاکہ کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو۔
تحریری فیصلے کے مطابق پاکستان اور آزاد کشمیر میں سیاسی پناہ کی پالیسی 1995 کے مطابق دونوں قیدیوں کو آزاد کشمیر کونسل کے ذریعے آزاد حکومت کے حوالے کردیا جائے۔
دونوں قیدیوں کی بے گناہی سمیت ان کی آواز حکام تک پہنچانے اور عدالت میں کیس کرنے تک کے تمام معاملات میں گلگت کی ایک غیر سرکاری تنظیم لون فاؤنڈیشن جی بی نے اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے اس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں، وزارتوں سے اس بابت روابط بھی کیے تھے۔
تنظیم کے کوآرڈینیٹر عالم لون کے مطابق ان کی تنظیم ان دونوں قیدیوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھڑی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا تو ہم نے خود کو معاملے سے دور رکھا تاہم جب یہ الزامات دور ہوئے تو ہمیں محسوس ہوا کہ اب ان کی واپسی ان کی زندگی کے لیے خطرہ ہے جس کے بعد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیے گئے اس فیصلے پر عدالت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔