بشن سنگھ سخت بے چین تھا۔ سالہا سال کی ترتیب میں پہلی بار ایسا ہوا کہ روپ کور اس سے ملنے نہیں آئی تھی۔ ہر دوسری جمعرات کو وہ صبح سویرے اٹھ کر پہلے کپڑے استری کراتا، پھر سر میں تیل پانی لگا کر تیار ہوتا اور بغیر ناشتے کے ملاقاتیوں کے کمرے کی طرف چل پڑتا۔ دنوں کی گنتی تو اسے یاد نہیں رہتی تھی مگر جس روز بیٹی ملنے آتی اس کے دل کی کیفیت کچھ اور ہی ہوتی۔ پاگل خانے کا ایک ملازم سنیل بھی اکثر اسے اگلی رات کو بتا دیا کرتا تھا کہ کل اس کی ملاقات کا دن ہے۔ اگلی صبح تک اسے سنیل کی بات یاد رہتی نہ رہتی مگر دل کے تار بٹیا کی آمد کا بتا دیتے۔ اس بار مگر کیفیت کچھ عجیب تھی۔ سنیل نے اسے یاد تو کرایا تھا مگر رات بھر اسے بے قراری رہی۔ صبح ہوئی تو وہ ٹھیک سے تیار بھی نہ ہوا بس جلدی سے کرتہ پاجامہ نکالا، بال سنبھالے اور ملاقاتی کمرے کی جانب چل پڑا۔
گھڑی کی سوئیوں نے گیارہ سے بارہ اور پھر ایک بجا دیا مگر روپ کور نہیں آئی۔ بشن سنگھ کو فکر ہوئی کہ آخر کیا وجہ ہوئی جو روپ کور ملنے نہیں آئی۔ دل میں وسوسے گھر آئے۔ خدشات نے گھیر لیا کہ سسرالیوں سے تنگ آئی بیٹی کہیں سرحد کھلنے پر اکیلی ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ نہ چلی گئی ہو۔ روپ نے اُس سے وعدہ کر رکھا تھا کہ پاگل خانے سے نکلنے پر وہ اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ ضرور لے کر جائے گی۔ ویسے ٹوبے سے متعلق اس نے پاگل خانے میں مقیم دوسرے پاگلوں کو بھی لمبی چوڑی کہانیاں سنا رکھی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ کر وہ اسے پاکستان اور ہندوستان سے الگ کر دے گا۔ اس کے ساتھی جب چاہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ آکر آباد ہو سکیں گے جہاں ان پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہو گی۔ اب اگر اس کی بیٹی اُسے چھوڑ کر ٹوبہ ٹیک سنگھ چلی گئی ہوئی تو وہ اپنے ساتھیوں کو کیا منہ دکھائے گا؟
اس کے ساتھ ملاقاتیوں کا نام پتہ رجسٹر میں درج کرنے والا کلرک بھی منتظر تھا کیونکہ بشن سنگھ کے لیے آنے والے کھانے پینے کے سامان سے اُسے بھی کچھ نہ کچھ ضرور ملتا تھا۔ دیسی گھی میں بنی چُوری، سرسوں کا ساگ، مکھن، دہی، ہر مرتبہ کچھ مختلف آتا تھا جو بشن سنگھ سے ہوکر کلرک کی میز کے نیچے چلا جاتا۔ اور بدلے میں وہ بشن سنگھ کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ کلرک سے بچا ہوا سامان اکثر وہ اپنے ساتھیوں یا پاگل خانے کے کسی دوسرے سنتری کے حوالے کرتا مگر آج شاید معاملہ خراب ہونے والا تھا۔
قریب ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا جب روپ کور کا بڑا لڑکا دل شیر ہاتھ میں ایک اخباری تراشہ لیے ملاقاتی کمرے میں داخل ہوا۔ دل شیر پیدائشی گونگا تھا تو اس نے اشاروں میں نانا کو کچھ بتانے کی کوشش کی اور کاغذ اس کے حوالے کر دیا۔ بشن سنگھ نے دو نظر اس کو دیکھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑبڑاتے ہوئے ملاقاتی کمرے سے باہر نکل پڑا۔ انگریزی اخبار تو وہ پڑھ نہیں سکتا تھا اس لیے اسے ماسٹر شکُلا کی تلاش تھی۔ ماسٹر جی جنہوں نے کسی زمانے میں سکول کی کچھ جماعتیں پڑھائی تھیں پاگل خانے میں بے قاعدگی سے لیکچر دیا کرتے تھے۔ جب کبھی کلاس لگاتے تو ان کا لیکچر زیادہ تر بیوی کی خوبیوں، خامیوں کے گرد گھومتا۔ البتہ، ان کےآس پاس رہنے والے سبھی پاگل انتہائی سنجیدگی سے کلاس لینے آتے۔
بشن سنگھ ماسٹر جی کو تلاش کرتا ہوا اُن کے جنگلے میں جا پہنچا۔ جہاں وہ قیلولہ کرنے میں مصروف تھے۔ اُس نے اپنی بنیان میں ہاتھ ڈال کر بڑی احتیاط سے اخبار کا تراشہ نکالا اور اسے پڑھ کر سنانے کی فرمائش کی۔ ماسٹر جی جو اپنی دھن میں مگن تھے اسے پڑھنے کے لیے اپنی عینک تلاش کرنے لگے۔
عینک ڈھونڈ کر ماسٹر جی نے اخباری تراشے کو پڑھا اور منہ پھیر لیا۔ بشن سنگھ نے لاکھ جتن کیے مگر وہ ایک لفظ بولنے پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ پھر اس نے ان کے شاگردوں سے مدد مانگی اور ایک ایک کر کے سب کو اخباری تراشہ دیا۔ جو پاگل بھی خبر پڑھتا جاتا اُسے گویا روپ کے گونگے پتر کی طرح چپ لگ جاتی۔ اسی اثناء میں پاگل خانے کا نائب داروغہ ادھر کو آنکلا جو بشن سنگھ کے خاندان کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جانتا تھا۔ بشن سنگھ نے اخباری تراشہ جو کئی ہاتھوں سے گزر کر خستہ حال ہو چکا تھا اسے احتیاط سے داروغے کو دیا۔
داروغے نے ایک نظر بشن سنگھ پر ڈالی اور پھر دوسری نظر اخبار پر ڈال کر باآواز بلند خبر پڑھنے لگا۔
خبر سن کر بشن سنگھ کے پیروں تلےسے زمین نکل گئی۔ اس نے سر جھکایا اور دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ جاگتی آنکھوں سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے کے سپنے نہیں دیکھ رہا تھا۔ جانا تو دور وہ ٹوبے کا نام بھی نہیں سننا چاہتا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سپنا ٹوٹ چکا تھا، بشن سنگھ ٹوٹ چکا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کے بھی ہاتھ پیر باندھ کر گلا دبایا جا رہا ہو۔ رکتی سانس کو سینے میں جمع کر کہ وہ پوری قوت سے چلایا،
اوپڑدی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ