1665 میں طاعون کی وبا کے دوران ایک 23 سالہ نوجوان اپنے باغ میں بیٹھا درخت سے گرتا ہوا سیب دیکھتا ہے (سیب اس کے سر پر نہیں گرا تھا)۔ اس منظر نے اسے سوچنے پہ مجبور کیا کہ سیب زمین کی طرف ہی کیوں گرا اور آسمان کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اسی غور وفکر کا نتیجہ کششِ ثقل اور اس کے قوانین کی دریافت کی صورت میں سامنے آیا۔ اس نوجوان کو ہم آئزک نیوٹن کے نام سے جانتے ہیں۔
نیوٹن بلا شبہ سترھویں اور اٹھارویں صدی کا عظیم فلاسفر اور سائنسدان تھا جس نے کششِ ثقل کے قانون کے علاوہ حرکت کے قوانین بھی دریافت کیے۔ ریاضی کی ایک نئی شاخ کیلکولس ایجاد کی اورروشنی اور عدسیات پر بھی قابلِ ذکر کام سرانجام دیا- یہ نیوٹن ہی تھا جس نے سب سے پہلے معلوم کیا کہ سفید روشنی دراصل سات رنگوں کا مجموعہ ہے۔
تاہم نیوٹن انتہا درجے کا انا پرست آدمی بھی تھا جس کا ایمان تھا کہ صرف وہی خدا کی تخلیق کردہ کائنات کے رازوں کو سمجھ سکتا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی منطق سے کوسوں دور تھی۔ حسد اس کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور وہ اپنے مرتبے کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم عصر فلاسفروں اور سائنسدانوں کے ساتھ بھی اس کی چپقلش اور خا ر رہی۔
نیوٹن کی اس پیچیدہ شخصیت کے پیچھے اس کے بچپن کے تلخ واقعات کا بھی ہاتھ ہے۔ گلیلیو کی وفات کے ایک سال بعد، 1643 میں کرسمس کی ایک صبح اس نے انگلستان کے علاقے وولستھورپ میں آنکھ کھولی۔ وہ وقت سے پہلے پیدا ہونے کی وجہ سے کمزور تھا۔ پیدائش سے چند ماہ قبل ہی اس کے والد کا انتقال بھی ہو چکا تھا۔
نیوٹن ابھی تین سال کا تھا کہ اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی اور نیوٹن کو اس کی نانی کے پاس چھوڑ کر شوہر کے ساتھ چلی گئی۔ خاندان خاص طور پرماں کی طرف سے اس طرح ٹھکرائے جانے کا نیوٹن کی شخصیت پر گہرا اثر ہوا اور اس کے دل میں سوتیلے باپ کے لے شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ اس نے اپنے سوتیلے باپ کا مکان جلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اسکول میں نیوٹن نے کتابوں کو اپنی تنہائی کا ساتھی بنایا۔ اسے شاعری یا ادب سے ذرا دلچسپی نہیں تھی اور میکانیات اور ٹیکنالوجی جیسے مضامین کی طرف اس کا میلان زیادہ تھا۔ اسی دوران اس نے ایک دھوپ گھڑی بنائی جو منٹ کی حد تک درست وقت بتاتی تھی۔
ابتدا میں نیوٹن بہت اچھا طالب علم نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں حیرت انگیز تبدیلی آتی گئی۔ ماں کی خواہش کے برعکس اس نے تعلیم جاری رکھی اور کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں آئزک بیرو جیسا ریاضی دان اس کا اتالیق بنا اور اس نے ریاضی کی ناحل شدہ گتھیوں کی طرف نیوٹن کی توجہ مبذول کی۔
طاعون کی وبا کے دوران جب یونیورسٹی بند ہو گئی تو نیوٹن اپنے آبائی قصبے کی طرف لوٹا جہاں اس نے کششِ ثقل، روشنی اور کیلکولیس پر انقلابی کام کیا۔ تاہم وہ اپنا کام خود تک محدود رکھتا تھا اوراسے شائع کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیتا رہا۔
لندن کی رائل سوسائٹی اس وقت ایک معتبر سائنسی فورم تھا۔ انھوں نے نیوٹن کو اپنا کام پیش کرنے کی دعوت دی۔ تاہم روشنی سے متعلق نیوٹن کے نظریے کو سوسائٹی کے ممبران کی طرف سے کچھ خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ نیوٹن کے تجربات کو دہرانے میں ناکام رہے تھے۔ وجہ تجربات کی تفصیل کا مبہم ہونا تھا۔
نیوٹن نے اس تنقید کو دل پر لے لیا۔ جب رابرٹ ہک نے اس کے روشنی اور رنگوں کے نظریے کو چیلنج کیا توگویا اس نے نیوٹن کی شکل میں ایک ازلی دشمن پیدا کر دیا۔ نیوٹن غصے کا تیز اور ہٹ دھرم شخص تھا جو ہمیشہ خود کو حق پر سمجھتا۔ نیوٹن بدنامی کی حد تک تنک مزاج تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک خالی کمرے میں بھی گرما گرم بحث شروع کر سکتا ہے۔ انہی وجوہات کی وجہ سے اس نے آہستہ آہستہ عالمانہ زندگی اور فلاسفروں سے کنارہ کر لیا۔
1684 میں جب جرمن فلاسفر اور ریاضی دان گوٹفریڈ لائبنیٹز نے ایک اہم تحقیقی مقالہ شائع کیا تو یہ ان دونوں فلاسفروں کے بیچ ایک تا حیات جھگڑے کی ابتداء تھی۔ نیوٹن کی طرح لائبنیٹز نے بھی ریاضی کی ایک شاخ کیلکولیس کی تھیوری تخلیق کی تھی۔ تاہم نیوٹن نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ کام 20سال پہلے کر چکا ہے اور لائبنیٹز پر سرقے کا الزام لگایا۔ لیکن حق بات یہ تھی کہ نیوٹن نے کیلکولیس سے متعلق اپنے نظریات کہیں شائع نہیں کیے تھے۔
اس واقعے کے دو سال بعد نیوٹن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’پرنسیپیا‘ تحریر کی جو اس کے کششِ ثقل، حرکت اور کیلکولیس کے نظریات اور قوانین کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب نے کائنات کے ریاضیاتی بیان کو ایک نئی اور اچھوتی راہ مہیا کی۔ یہی وہ کام ہے جس نے نیوٹن کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا اور وہ آج تک جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
1689 میں نیوٹن نے سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عوامی شخصیت کے طور پر بھی ابھرتا چلا گیا۔ 1703 میں اسے رائل سوسائٹی کے صدر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس عہدے کو نیوٹن نے اپنی شہرت کے لیے استعمال کیا۔ طاقت اور شہرت کے نشے سے چور اس نے اپنے مرتبے کو دوسروں کو بنانے اور بگاڑنے کے لیے بے دردی سے استعمال کیا۔ مثلاً اس نے رابرٹ ہک کا نام تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی۔ معروف آسٹرونامر فلیمسٹیڈ کا ستاروں کا کیٹالاگ اس کی منشا کے بغیر شائع کر دیا۔
اسی دوران نیوٹن نے لائبنیٹز کے ساتھ کیلکولیس کی ایجاد کے قضیے کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔ کیلکولیس کے اصل خالق کا پتہ چلانے کی غرض سے رائل سوسائٹی نے 1713 میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی خفیہ رپورٹ میں نیوٹن کو اصل خالق قرار دے دیا۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کمیٹی کے فیصلے کا خفیہ مصنف کوئی اور نہیں بلکہ نیوٹن خود تھا۔ اس فیصلے کے کچھ ماہ بعد لائبنیٹز کی وفات ہو گئی اور وہ سرقے کا الزام اپنے دامن پر لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ نیوٹن اور لائبنیز دونوں آزادانہ طور پر کیلکولیس کے موجد تھے۔
نیوٹن نے آج ہی کے روز سنہ 1727 میں 84 برس کی عمر میں وفات پائی اور اسے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ مرنے کے 297 برس بعد بھی اس کا نام زندہ ہے اور انگلینڈ میں آج بھی اسے ایک قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ نیوٹن نے کائنات کے قوانین کو سمجھنے کے لیے ایک نئی بصیرت فراہم کی، جس نے مستقبل کی سائنسی تحقیقات کا رخ متعین کیا۔ اس کی تحقیقات نے نہ صرف سائنس کو شکل دی، بلکہ انسانی سوچ کو نئی جہتوں تک پہنچایا۔
اس کے باوجود نیوٹن کی شخصیت میں موجود تضادات نے اسے ایک پیچیدہ شخصیت بنا دیا۔ اس کی علمی شخصیت اور ذاتی خامیوں کے بیچ کا تنازعہ، اس کی زندگی کی داستان کو اور بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔ نیوٹن کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ایک عبقری شخصیت اپنی خامیوں کے باوجود علمی دنیا پر گہرا اثر چھوڑ سکتی ہے۔