ٹیکس وصولوں کے لیے یکم اپریل سے رجسٹریشن، تاجر کیا کہتے ہیں؟

اتوار 31 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تاجر دوست اسکیم کا اعلان کردیا جس کے تحت ابتدائی طور پر یکم اپریل سے پرچون فروش، فرنیچر و آرائش شوروم، زیورات و کاسمیٹکس، میڈیکل، ہارڈویئر اور تھوک فروش کو تاجر دوست رجسٹریشن اسکیم میں لایا جائےگا۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس حوالے سے آمادگی کا اظہار کیا ہے اور اب کسی بھی وقت اس حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا جائے گا۔ ابتدائی مرحلے میں ان کاروباروں کو 6 منتخب شہروں میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ ایف بی آر کی تاجر دوست اسکیم کی رجسٹریشن 4 میٹروپولیٹن شہروں میں ہوگی۔

یہ اسکیم میٹرو پولیٹن شہروں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد میں بھی نافذ ہوگی اور ٹیکس کلیکشن یکم جولائی 2024 سے شروع کی جائےگی۔

اس اسکیم کے حوالے سے تاجروں کا کیا ردعمل ہے۔ یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے کچھ تاجروں سے بات کی۔

چھوٹے تاجروں کا کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا، ریٹیلر محمد عامر

ریٹیلر محمد عامر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ تاجر پہلے ہی ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے بجلی کے بل بہت زیادہ آتے ہیں، اس پر بھی مختلف ٹیکسز دیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی چالان ہم جیسے تاجروں کو سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

’جب ایک چیز کا منڈی میں ہی ریٹ زیادہ ہو تو کم پیسوں میں کیسے فروخت کریں ‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ چھوٹے تاجروں کا کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

ہر چھوٹی بڑی چیز پر ٹیکس تاجروں کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں، سعد اختر

مری روڈ راولپنڈی میں جیولری کا کاروبار کرنے والے سعد اختر کہتے ہیں کہ جس طرح سے ہر چھوٹی بڑی چیز پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، یہ تاجروں کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ جتنے ٹیکسز لگیں گے اسی حساب سے چور بازاری مزید بڑھ جائے گی۔ پہلے ہی کاروبار ختم ہو رہے ہیں، پاکستان میں چھوٹے تاجروں کو اس وقت بے حد مشکلات کا سامنا ہے اور ان ٹیکسز کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائےگا۔

حکومت تاجروں کو بھوکا مارنا چاہتی ہے، مختار مسعود

راجا بازار میں کاسمیٹکس کی گزشتہ 15 برس سے ہول سیل دکان چلانے والے مختار مسعود نے بات کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اس طرح کی اسکیموں سے تاجروں کو بھوکا مارنا چاہتی ہے کیونکہ تقریباً کورونا کے بعد سے اب تک کاروبار سیٹ نہیں ہو پایا۔ ’ٹھیک ہے ٹیکس ادا کرنا چاہیے مگر جب کاروبار ہی نہ ہو تو کہاں سے ٹیکس دیا جائے۔ اب شاید آنے والے دنوں میں ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جو بچا کھچا کاروبار ہے وہ بھی بند ہو جائےگا ‘۔

سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروبارہ تباہ ہوگئے، عمیر عباسی

راجا بازار میں مصالحہ جات کی تھوک کی دکان چلانے والے عمیر عباسی کہتے ہیں کہ کاروبار چاہے چھوٹا ہے یا بڑا دونوں ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن اس میں بھی سب سے زیادہ چھوٹا تاجر متاثر ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ چھوٹا تاجر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور بجلی، گیس کے بلوں میں ٹیکسز دے رہا ہے، حکومت مزید ٹیکس لاگو کرتی ہے تو اس کا اثر خریدار پر بھی ہوگا۔ اور اس سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید مزید ختم ہوتی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ چھوٹا تاجر ٹیکس ادا کر بھی دے لیکن ملک کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئے روز چیزوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری پہلے ہی پریشان ہے اور حکومت مزید ٹیکسز کی بات کررہی ہے جو کہ یقیناً اس وقت تاجروں کے لیے ناممکن سی بات ہے۔

ٹیکس ادا بھی کردیا تو حکومت کو ہی فائدہ ہوگا، باسط عباسی

جی 13 میں فارمیسی چلانے والے باسط عباسی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قیمتیں مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی بہت اوپر جا چکی ہیں۔ اب اگر ٹیکس لگتے ہیں تو مزید بوجھ پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید ٹیکس لگنے کی صورت میں وہ جس مقدار میں سامان لیتے تھے نہیں لے سکیں گے۔

باسط عباسی نے کہاکہ ٹیکس لگنا چاہیے لیکن اس کے بدلنے میں بھی تو کچھ ملنا چاہیے۔ تاجر بھی عوام میں سے ہی ہوتا ہے، وہ بجلی کے بلوں میں ٹیکسز ادا کررہا ہے۔ لائسنس رینیو کروانے پر ٹیکس دے رہا ہے۔ نئے ٹیکسز لگانے کے فیصلے سے خریدار اور تاجر دونوں پر فرق پڑےگا۔

انہوں نے مزید کہاکہ ٹیکس اگر ہم ادا بھی کر دیں تو صرف حکومت کو ہی فائدہ ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp