دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے عالمی ریکارڈ یافتہ امپائر علیم ڈار نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی)کے ایلیٹ پینل سے استعفیٰ دے دیا۔
علیم ڈار نے 435 انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیے جو ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ڈار نے ریکارڈ 144 ٹیسٹ اور 222 ون ڈے جب کہ 69 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کا فریضہ انجام دیا۔
Congratulations Aleem Dar on a successful career as an elite panelist. He was the first Pakistani to become a member of the ICC Elite Panel of Umpires in 2004. pic.twitter.com/GTibtFTaoH
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) March 16, 2023
علیم ڈار آئی سی سی ایلیٹ پینل میں شامل ہونے والے پہلے پاکستانی امپائر تھے۔ وہ 2004 میں ایلیٹ پینل آف امپائرز میں شامل ہوئے تھے۔ علیم ڈار نے 2009، 2010 اور 2011 میں مسلسل تین بار بہترین امپائر کا ایوارڈ جیتا۔
علیم ڈار کی جگہ دوسرے پاکستانی امپائر احسن رضا کو آئی سی سی ایلیٹ پینل میں شامل کر لیا گیا ہے۔ احسن رضا کو سال 24-2023 کے لیے آئی سی سی ایلیٹ پینل میں شامل کیا گیا ہے۔
Congratulations Ahsan Raza on the promotion to the ICC Elite Panel of Umpires.
More details ➡️ https://t.co/peyQhTpOPB pic.twitter.com/dDqxxlNth6
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) March 16, 2023
احسن رضا 2010 سے آئی سی سی پینل آف امپائر میں شامل ہیں۔ اب انہیں ایلیٹ پینل میں ترقی دی گئی ہے۔ احسن رضا 72 ٹی ٹوئنٹی، 41 ون ڈے اور 7 ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کر چکے ہیں۔
علیم ڈار درجہ اول کرکٹ کھلاڑی تھے
علیم ڈار کا اصل نام علیم سرور ڈار ہے۔ وہ 6 جون 1968ء کو پنجاب کے ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ڈار پاکستان کے درجہ اول کرکٹ کھلاڑی تھے۔ انہوں نے الائیڈ بینک، گوجرانوالا کرکٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان ریلوے کی طرف سے کرکٹ کھیلی۔
علیم ڈار سیدھے ہاتھ سے بلے بازی اور لیگ بریک بالنگ کراتے تھے۔ کرکٹ سے رخصت ہونے کے بعد امپائرنگ ان کی وجہ شہرت بنی۔ انہوں نے اپنی تعلیم اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے حاصل کی۔
بین الاقوامی امپائرنگ کا آغاز اور اختتام پاکستان میں ہوا
علیم ڈار وہ خوش نصیب امپائر ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی وطن عزیز پاکستان سے کیا اور آخری میچ بھی پاکستان میں سپروائز کیا۔
پاکستان اور سری لنکا کے مابین 16 فروری 2000ء کو گوجرانوالا میں کھیلا جانے والا ایک روزہ بین الاقوامی میچ علیم ڈار کا پہلا جبکہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 13 جنوری 2023 کو کراچی میں کھیلا جانے والا ون ڈے میچ بطور امپائر ان کا آخری میچ تھا۔
ڈار 2002ء میں آئی سی سی کے بین الاقوامی امپائر پینل کا حصہ بنے۔ اپنے نپے تلے اور درست فیصلوں کی بدولت انہیں آئی سی سی ورلڈ کپ 2003ء میں امپائرنگ کا موقع ملا۔ جس سے علیم ڈار کو خاصی پذیرائی ملی۔
شاندار امپائرنگ کی وجہ سے ڈار اکتوبر (21-25) 2003ء میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین ڈھاکا میں کھیلے گئے پہلے بین الاقوامی ٹیسٹ کے لیے چنے گئے تھے۔ فروری (16-19) 2023 میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ماؤنٹ منگنوئی میں کھیلا گیا ٹیسٹ میچ علیم ڈار کا بطور امپائر آخری ٹسیٹ میچ تھا۔
اپریل 2004ء میں علیم ڈار آئی سی سی کے ایلیٹ پینل کے پہلے پاکستانی امپائر منتخب ہوئے۔ ڈار 2005ء اور 2006ء میں آئی سی سی کے بہترین امپائر کے اعزاز کے لیے بھی نامزد ہوئے۔
17 اکتوبر 2007ء کو آسٹریلیا اور بھارت کے مابین کھیلا جانے والا ایک روزہ مقابلہ علیم ڈار کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ محض سات برس میں یہ ان کا 100واں میچ تھا۔ وہ یہ سنگ میل طے کرنے والے 10ویں امپائر بنے۔
ٹی 20 کے عالمی مقابلوں میں بھی علیم ڈار نے امپائرنگ کی۔ اس فارمیٹ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پہلے اور آخری ٹی 20 میچ کی کامن ٹیم آسٹریلیا ہے۔
7 مئی 2009 کو دبئی میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا ٹی 20 میچ ڈار کا پہلا میچ تھا۔ 4 نومبر 2022 کو ایڈیلیڈ میں افغانستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا ٹی 20 میچ علیم ڈار کا آخری ٹی 20 میچ تھا۔
علیم ڈار نے 2006 کی چیمپیئنز ٹرافی، 2007 اور 2011 کے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل کے ساتھ ساتھ 2010 اور 2012 کے ٹی 20 ورلڈ کپ فائنل میں بھی امپائرنگ کے فرائض انجام دیے۔
2011 کا عالمی کپ علیم ڈار کے فیصلوں کے لیے بہترین رہا جس میں ان کے 15 فیصلوں پر ریویو لیے گئے۔ ٹیکنالوجی نے ان کے تمام کے تمام 15 فیصلے درست ثابت کیے۔ اس ورلڈ کپ میں وہ واحد امپائر تھے جن کا کوئی بھی فیصلہ ڈی آر ایس (Decision Review System) میں غلط ثابت نہ ہوا۔
علیم ڈار تنازعات کی زد میں
علیم ڈار سے دیگر امپائرز کی طرح غلطیاں بھی ہوئیں۔ جنوری 2005ء میں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے درمیان سنچیورین میں کھیلے جانے والے پانچ روزہ میچ میں علیم ڈار اور ان کے ساتھی سٹیو بکنر کو دھمکیاں دی گئیں۔
2007 میں کھیلے گئے عالمی کپ مقابلوں کے فائنل کھیل میں علیم ڈار اور ان کے ساتھیوں اسٹیو بکنر، روڈی کرٹزن، بلی باؤڈن کو ڈک ورتھ لوئس کے تحت ہونے والے کھیل کے حالات سے بے خبر ہونے اور آسٹریلیا کو اندھیرے میں تین اوور کروانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر امپائرز کے ساتھ 2007ء میں انہیں ٹی 20 میچز میں امپائرنگ کا موقع نہیں دیا گیا۔
ڈار 2015 کے عالمی کپ کے دو میچوں میں بھی تنقید کی زد میں آئے تھے جس کے بعد وہ سیمی فائنل اور فائنل میں امپائرنگ نہیں کر سکے تھے تاہم مجموعی طور پر علیم ڈار کا امپائرنگ کیریئر بہت شاندار رہا ہے۔
انڈین شائقین 2019 کے ورلڈ کپ میں تھرڈ امپائر علیم ڈار کے فیصلے پر سراپا احتجاج نظر آئے۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں امپائر نے یقینی شواہد نہ ہونے کی بنا پر ایل بی ڈبلیو کی اپیل پر ’ٹریکر‘ کا استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔ علیم ڈار کے اس فیصلے کی بدولت انڈین ٹیم اپنا اکلوتا ریویو کھو بیٹھی۔
ویرات کوہلی میچ کے دوران امپائروں سے اس فیصلے پر بحث کرتے نظر آئے۔ اُن کے خیال میں اگر ٹریکر کا استعمال کیا جاتا تو انڈین ٹیم اپنا ریویو بچانے میں کامیاب ہو جاتی۔
علیم ڈار نے امپائرنگ کے بارے میں سادہ اصول اپنا رکھا ہے کہ غلطی ہر انسان سے ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی فیصلہ تبدیل ہو جائے تو اسے اپنے ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے آپ کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور آپ ایک اور غلطی کر سکتے ہیں۔
آئی سی سی ایوارڈ والد کی قبر پر رکھ کر روتے رہے
علیم ڈار کے والد ڈپٹی سپرٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں اپنے بیٹے پر بہت ناز تھا وہ ان کے امپائرنگ کے فیصلوں میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھے۔ والد کی خواہش تھی کہ علیم ڈار آئی سی سی کے بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کریں۔
جب علیم ڈار نے 2009 میں پہلی بار بہترین امپائر کا آئی سی سی ایوارڈ اپنے نام کیا تو ان کے والد دنیا چھوڑ چکے تھے۔ وہ آئی سی سی ایوارڈ ملنے کے بعد ایئر پورٹ سے سیدھے والد کی قبر پر گئے اور اس پر ٹرافی رکھ کر کافی دیر روتے رہے۔