جوڈیشل کمیشن سے کیا ججز کو انصاف ملے گا؟

منگل 2 اپریل 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کا دور تھا۔ اسوقت جسٹس امیر الملک مینگل بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ایک ویک اینڈ پر انہیں کوئٹہ سے اپنے گاؤں کسی کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ راستے میں ایف سی کی ایک چیک پوسٹ پر انکے کانوائے کو روکا گیا۔ چیک پوسٹ پر تعینات اہلکاروں نے گاڑی کی تلاشی کا مطالبہ کیا تو چیف جسٹس کے پروٹوکول پر متعین اہلکاروں نے انہیں آگاہ کیا کہ گاڑی میں کون سوار ہیں۔ لیکن اسکے باوجود بھی ایف سی کے اہلکار بضد رہے کیونکہ انکے مطابق ان چیک پوسٹوں کے انچارج ایک کیپٹن کے احکامات ہیں کہ سب کی تلاشی لینی ہے۔

چیف جسٹس کے پروٹوکول پر تعینات اسٹاف نے چیف صاحب کو آگاہ کیا تو چیف صاحب نے گاڑی کی تلاشی دینے انکار کرتے ہوئے گاڑی چلانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس کی گاڑیوں کا کانوائے بغیر تلاشی دیے جب چلا تو پیچھے سے ایف سی کے اہلکاروں نے فائرنگ کردی۔ بہرحال اس ناخوشگوار واقعے کے بعد جب چیف جسٹس امیرالملک مینگل صاحب واپس کوئٹہ پہنچے تو انہوں نے ہائی کورٹ کے دیگر 2 سینیئر ججز سے ملاقات کی اور ان سے مشورہ کیا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے وہ 2 سینیئر ججز جن سے جسٹس امیرالملک مینگل نے مشورہ کیا وہ پاکستان کی تاریخ کے 2 اہم ترین کردار تھے۔ وہ 2 سینیئر ججز کوئی اور نہیں ایک جسٹس افتخار چوہدری اور دوسرے جسٹس جاوید اقبال تھے۔ ان دونوں جج صاحبان نے اپنے چیف جسٹس کو مشورہ دیا کہ ایف سی کے اس کیپٹن کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ انکے مشورے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تو اگلے دن پتا چلا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کو پروموٹ کرکے بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سمری تیار کرلی گئی ہے۔

جسٹس امیرالملک مینگل کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نےفیصلہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ جانے کے بجائے مستعفی ہونا گوارا کریں گے۔ حالانکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اگر وہ سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوتے ہیں تو کچھ سالوں میں وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن جائیں گے لیکن انہوں نے استعفیٰ دینے پر اکتفا کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد انہی جسٹس امیرالملک مینگل کو جنہوں نے ایف سی کی چیک پوسٹ والے واقعے کی بنیاد پر بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانے کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا صوبے کا گورنر تعینات کردیا گیا۔

جسٹس امیرالملک مینگل سے کسی نے پوچھا کہ وہ ایک کیپٹن کی ایسی حرکت پر اتنے اہم عہدے سے مستعفی ہوگئے لیکن ایک ڈکٹیٹر کی حکومت میں گورنر کا عہدہ قبول کرنے کی حامی کیوں بھری۔ اس پر جسٹس امیرالملک مینگل نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ سے وہ سپریم کورٹ تعیناتی کا فیصلہ اگر قبول کرلیتے تو اس سے وہ ایف سی کا کیپٹن ایک صوبے کے چیف جسٹس سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا کہ اسکی وجہ سے اسے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا کر کہیں اور بھیج دیا گیا چاہے وہ ترقی کی صورت ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے وہ عہدہ قبول کرنے کی بجائے میں نے مستعفی ہونا بہتر سمجھا۔ اس واقعے کو تفصیل سے  بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان جب کوئی فیصلہ کرنے کی ٹھان لے تو اسے نہ کوئی دھونس دھاندلی اور نہ ہی کوئی مراعات مرغوب کرسکتی ہیں کہ وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کیطرف سے لکھا جانے والا خط جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ایجنسیوں کے اہلکاران عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک سنگین معاملہ ہے۔ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی عدلیہ کی رینکنگ پہلے ہی 130 ویں نمبر پر اس خط سے دنیا بھر میں مزید جگ ہنسائی ہوگی۔ اس لیے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کو اس مسئلے کو سنجیدہ لیتے ہوئے اسکی تحقیقات کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلے کی روشنی میں حکومت نے ایک اچھی شہرت کے حامل سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس، جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن تو بنا دیا ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتیں اور وکلا کا ایک حصہ یہ مطالبہ کررہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کا فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت خود کرے۔

سوال مگر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ ایسا کیا مختلف کرے گا جو ایک ریٹائر چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں کرسکتا؟ ہاں اگر تحقیقات ہونے کے بعد یہ شائبہ ہو کہ یہ بالکل غیر شفاف ہوئی ہیں تو اسکے بعد سوال اٹھانا بنتا ہے۔جس ہائی لیول پر یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے اور اتنے ہائی پروفائل کیس کو اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دبا دیا جائے گا، یا تحقیقات شفاف نہیں ہونگی تو پھر سوال اٹھانا بنتا ہے۔

میرے خیال میں تو اس کمیشن کی تحقیقات کے بعد جو بھی سفارشات آئیں گی ان پر ہر حال میں عملدرآمد ہوگا کیونکہ حکومت اس طرح کے ہائی پروفائل معاملے کو کسی صورت نہیں دبا سکتی۔ جتنا اس معاملے کو متنازع بنایا جائے گا معاملہ اتنا ہی کھٹائی میں پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کمیشن کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور جن ججز صاحبان نے الزامات لگائے ہیں وہ ان کو کمیشن کے سامنے ثابت کریں تاکہ عدلیہ کے کاموں میں دخل اندازی کرنے والوں کیخلاف تادیبی کاروائی کی جاسکے۔ اس سے صرف ان 6 ججز کو ہی انصاف نہیں ملے گا بلکہ پورا نظام انصاف سرخرو ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp