پاکستان کے معاشی چیلنجز اور نیا وزیر خزانہ

پیر 11 مارچ 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انتخابات ہوئے ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وزیراعظم بھی حلف لے چکے ہیں لیکن وفاقی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا اس کا فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ متوقع کابینہ کے نام حکمران جماعت نے دولت درد کی طرح اپنے سینے میں ہی چھپا رکھے ہیں کہ مبادہ دنیا کو اگر خبر ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے۔ میڈیا نے مفروضوں کی بنیاد پر کئی لوگوں کے نام چلائے جو متوقع طور پر وفاقی کابینہ کے نگینے بن سکتے ہیں۔ انہی ناموں میں سے مختلف نام وزیراعظم کے بعد سب سے اہم عہدے وزیر خزانہ کے لیے بھی گردش کرتے رہے۔ اسحاق ڈار، شمشاد اختر، سلطان علی الا نہ اور پھر محمد اورنگزیب یہ سب خزانے کی کنجی سنبھالنے کے امیدوار تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بالآخرقرعہ محمد اورنگزیب کے نام نکل رہا ہے۔

ایک مہینہ پہلے تک کوئی جانتا تک نہیں تھا کہ محمد اورنگزیب کون ہے، ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ گوکہ کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ لوگوں میں محمد اورنگزیب ایک جانا پہچانا نام ہیں کیونکہ وہ اس وقت پاکستان کے چند بڑے بینکوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں اور گزشتہ 6 سالوں سے اس ٹاپ پوزیشن پر براجمان ہیں۔

انگریزی اخبار دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد اورنگزیب دُہری شہریت کے حامل ہیں اور ان کے پاس یورپی ملک ہالینڈ کی شہریت ہے۔ لیکن وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے وہ اپنی ڈچ شہریت ترک کر رہے ہیں۔ اور اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ پراسیس شروع کر دیا ہے۔

محمد اورنگزیب کا شمار پاکستان کے 5 ٹاپ سی ای اوز میں ہوتا ہے جن کو سب سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ ان کی سالانہ تنخواہ 352 ملین روپے ہے یعنی یہ 3 کروڑ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اتنی بھاری تنخواہ اور مراعات قربان کرکے وہ یہ عہدہ قبول کررہے ہیں۔ اتنی بھاری تنخواہ اور مراعات لینے والے شخص کو کیا عام آدمی کے مسائل اور ضروریات کا ادراک ہوسکتا ہے؟ عام آدمی کا مسئلہ نہ بیرونی قرضے ہیں، نہ جی ڈی پی گروتھ ہے، نہ گردشی قرضہ اور نہ اس سے سروکار ہے کہ آئی ایم ایف پیکیج لینے کے لیے کیا شرائط ہوں گی۔

پاکستان کے عام عوام اور غریب طبقے کو تو غرض صرف اس بات سے ہے کہ ان کو 2 وقت کی روٹی کیسے میسر ہوگی۔ ان کو بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے گھر کی کوئی چیز تو نہیں بیچنی پڑے گی۔ مہنگائی کی شرح اتنی تو نہیں بڑھے گی کہ ان کو 2 کے بجائے ایک روٹی پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ ان کو اس بات سے سروکار ہے کہ اس عہدے پر چاہے کوئی سیاستدان آئے یا کوئی 3 کروڑ ماہانہ تنخواہ لینے والا ٹیکنوکریٹ بس ان کے یہ بنیادی مسائل حل کرے۔ کیا محمد اورنگزیب غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے؟

پاکستان کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اسے قرضے لینے پڑتے ہیں یا پھر نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں۔ قرضے لیتے ہیں تو قرض دینے والوں کی کچھ شرائط بھی ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے بوجھ صرف عوام پر ہی پڑتا ہے جبکہ اگر ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپتے ہیں تو مہنگائی بڑھتی ہے۔ ہر 2 صورتوں میں بوجھ عام عوام پر ہی آتا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟

نئے وزیر خزانہ کو سب سے پہلا کام نقصان پر چلنے والے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے سیکٹرز جو کہ ٹیکس کے دائرے میں نہیں مثلاً ایگریکلچر، ڈاکٹرز، ریٹیلرز، چارٹڈ اکاؤنٹنٹس وغیرہ، ان پر ٹیکس لاگو کرنا ہوگا۔ یہ دونوں کام اتنے آسان نہیں بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ اگر وہ یہ کر پائے تو یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایس پی اور انفراسٹرکچر پراجیکٹس کو روکنا ہوگا کیونکہ یہ تمام پراجیکٹس قرضوں سے بنتے ہیں جس پر سالانہ ملینز ڈالر سود علیحدہ سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے غیر ضروری اخراجات پر ایک سے 2 سال کے لیے پابندی لگا دینی چاہیے۔

نئے وزیر خزانہ کو سبسڈیز کا بھی دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ سبسڈیز کا مقصد اگر غریب عوام کو ریلیف دینا ہے تو اس کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز کا نظام اپنائیں۔ حکومت کے پاس بے نظیر اِنکم سپورٹ کی صورت میں ایک وسیع ڈیٹا بیس ہے۔ اس پروگرام کی رقم بڑھا کر صرف مستحق لوگوں کی مالی مدد کی جائے، اس سے غیر ضروری سبسڈیز کا بھی خاتمہ ہوگا اور غریب و مستحق عوام کی مدد بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ پر rely کرنے کی بجائے صوبائی ٹیکس محصولات حاصل کرنے کے لیے بھی قائل کرنا ہوگا۔

نئے وزیر خزانہ اگر یہ تمام اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو محمد اورنگزیب کا نام تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے معاشی مسائل جس حد تک بگڑ چکے ہیں اگر ان میں بہتری نہ آئی تو مجھے خدشہ ہے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہو جائے گی۔ اب پانی عوام کے سروں سے گزرنے لگا ہے اور ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق خدانخواستہ کہیں معاملات عوام اپنے ہاتھوں میں لینا شروع نہ کر دے۔ اس لیے وزیراعظم شہباز شریف اور حکمران اتحاد کو ان معاشی اصلاحات کے لیے نئے وزیر خزانہ کو فری ہینڈ دینا ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp