انگلینڈ میں ٹائپ 1 ذیابطیس والے ہزاروں افراد کو ایک نئی ٹیکنالوجی کی پیشکش کی جائے گی جسے مصنوعی لبلبے کا نام دیا گیا ہے تاکہ مریض کی حالت سنبھلنے میں مدد مل سکے۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ نظام جلد کے نیچے گلوکوز سینسر کا استعمال کرتا ہے تاکہ خود بخود اندازہ لگایا جا سکے کہ پمپ کے ذریعے کتنی انسولین کی ترسیل ہورہی ہے۔
نیشنل ہیلتھ سروس ماہ رواں کے آخر میں بالغوں اور بچوں سے رابطہ کرنا شروع کر دے گی جو اس نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن نیشنل ہیلتھ سروس نے واضح کیا ہے کہ ہر ایک اہل مریض کو موقعہ ملنے میں 5 سال لگ سکتے ہیں۔
ہر ایک کو یہ سہولت فوری میسر نہ ہونے کی وجوہات میں آلات کی فی الوقت کمی اور ان کے استعمال کے طریقہ کار میں مزید عملے کو تربیت دینا شامل ہیں۔
ٹرائلز کے دوران ’ہائبرڈ کلوزڈ لوپ سسٹم‘ کہلانے والی یہ ٹیکنالوجی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور طویل مدتی صحت کی پیچیدگیوں کے خطرے کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہوئی ہے۔
پچھلے سال کے آخر میں، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (نائس) نے کہا تھا کہ نیشنل ہیلتھ سروس کو اسے استعمال کرنا شروع کر دینا چاہیے۔
برطانیہ میں تقریباً 3 لاکھ افراد ٹائپ 1 ذیابطیس میں مبتلا ہیں جن میں تقریباً 29 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ان کا لبلبہ انسولین پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے جو کہ ایک اہم ہارمون ہے جو کھانے کو توانائی میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
انہیں خون میں شوگر یا گلوکوز کی سطح کو باریکی سے مانیٹر کرنا پڑتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر دن انجیکشن یا پمپ کے ذریعے خود کو انسولین دینی پڑتی ہے۔
یہ نئی ٹیکنالوجی خود بخود ایسا کرتی ہے اور عملی طور پر لبلبے کے کام کی نقل کرتی ہے تاہم اسے درست طریقے سے کام کرنے کے لیے کھانے کے وقت کھانے کی مقدار کے بارے میں معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کا مقصد ٹائپ 1 ذیابیطس والے لوگوں کو بلڈ گلوکوز کی کم یا زیادہ سطح کا سامنا کرنے سے روکنے میں مدد کرنا ہے۔ کیوں بلڈ شوگر بے ہوشی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
اور یہ بلڈ شوگر کے مجموعی کنٹرول کو بہتر بنانے میں بھی مدد کرتی ہے یعنی یہ دل کی بیماری، آنکھوں کی بینائی کے مسائل اور گردے کی بیماری جیسی پیچیدگیوں کے امکانات کم کرتی ہے۔
اسکاٹ لینڈ بھی اس ٹیکنالوجی کی پیشکش کر رہا ہے اور ویلز اور شمالی آئرلینڈ جلد ہی اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔
پلائی ماؤتھ سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ جیما لاوری نیشنل ہیلتھ سروس پائلٹ اسکیم کا حصہ بننے کے بعد اس ڈیوائس کو استعمال کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اب کام سے متعلق تناؤ کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو میرے خون میں گلوکوز کی سطح کو متاثر کرتی ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی اسے مسئلہ بننے سے پہلے ہی حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔
جیما نے کہا کہ میں باقاعدگی سے کم گلوکوز کی سطح کے بارے میں فکر کیے بغیر پوری رات سو سکتی ہوں جو میری صبح کے معمولات میں رکاوٹ ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ میرا شوگر لیول اب زیادہ مستحکم ہے۔
مفید ٹیکنالوجی
این ایچ ایس کے نیشنل اسپیشلٹی ایڈوائزر برائے ذیابطیس کے پروفیسر پارتھا کار نے کہا کہ یہ اقدام ٹائپ 1 ذیابطیس والے ہر فرد کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف طبی دیکھ بھال کو بہتر بناتی ہے بلکہ متاثرہ افراد کے معیار زندگی کو بھی بہتر بناتی ہے۔
شوگر میں ’4 ٹیز‘ کون سی ممکنہ علامات ہوتی ہیں؟
این ایچ ایس انگلینڈ کے ذیابطیس کی کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر کلیئر ہیمبلنگ نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی ٹائپ 1 ذیابطیس والے لوگوں کی زندگیوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر کلیئر ہیمبلنگ نے مزید کہا کہ ٹائپ 1 ذیابطیس تشخیص کے دوران بآسانی چھپ بھی جاتی ہے لہٰذا اگر آپ ’4 ٹیز‘ کے ہاتھوں پریشان ہیں تو آپ آگے آئیں اور اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہوں۔
4 ٹیز سے ان کی مراد (ٹوائیلٹ، تھرسٹ، ٹائرڈ، تھنر) ہیں جن کا مطلب ہے کہ بار بار ٹوائلٹ جانا اور کثرت سے پیشاب کرنا، پیاس لگنا، تھکاوٹ محسوس کرنا اور (چوتھا ٹی) دبلا ہونا۔