جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا کے مقابلے میں اکثریت کا انتخاب چین کیوں؟

جمعرات 4 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوب مشرقی ایشیا کے آدھے سے زیادہ لوگ اگر انتخاب کرنے پر مجبور ہوئے تو وہ امریکا کے مقابلے میں چین کا ساتھ دیں گے، ایک سروے کے نتائج سے خطے میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس ہفتے جاری کیے گئے اسٹیٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشیا 2024 کے سروے میں، 50 فیصد سے زائد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ چین کی حمایت کریں گے، اس نوعیت کی چینی حمایت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد پوائنٹس اضافہ ہوا ہے۔

سروے کے تازہ ترین ایڈیشن میں، جو سنگاپور میں قائم آئی ایس ای اے ایس یوسف اسحاق انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے سالانہ کرایا جاتا ہے، پہلی مرتبہ چین کو امریکا پر ترجیح دی گئی ہے، پچھلے سال، صرف 38.9 فیصد جواب دہندگان نے چین کو ترجیح دی تھی جبکہ 61.1 فیصد نے امریکا کی حمایت کی۔

سروے کے زیادہ تر جواب دہندگان نے چین کو خطے میں سب سے زیادہ بااثر اقتصادی طاقت کے طور پر بھی چنا، 59.9 فیصد جواب دہندگان نے اسے امریکا پر فوقیت دی۔

چین کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرنے کے باوجود، جواب دہندگان نے بیجنگ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا، 67.5 فیصد جواب دہندگان نے چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

سب سے زیادہ تشویش ویتنام میں تھی جہاں 87.7 فیصد جواب دہندگان نے چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرورسوخ پر تشویش کا اظہار کیا، اس کے بعد میانمار 87.6 فیصد، تھائی لینڈ 80.3 فیصد اور فلپائن 75.8 فیصد تھے۔

سروے کے نصف سے زیادہ جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ چین اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت کو خطے کے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جبکہ دیگر 45.5 فیصد نے کہا کہ وہ چین پر اعتماد نہیں کرتے۔

جاپان، امریکا اور یورپی یونین کو بالترتیب 58.5 فیصد، 42.4 فیصد اور 41.5 فیصد جواب دہندگان نے سب سے زیادہ قابل اعتماد علاقائی طاقتوں کے طور پر منتخب کیا۔

امریکا کے جرمن مارشل فنڈ میں انڈو پیسیفک پروگرام کے مینیجنگ ڈائریکٹر بونی گلیزر نے کہا کہ سروے چین کے ساتھ خطے کے پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

’وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ممکنہ چینی اقتصادی جبر سے ڈرتے بھی ہیں، اپنی خودمختاری کو لاحق خطرات کی مخالفت کرتے ہیں، اور عام طور پر چین پر صحیح کام کرنے کے حوالے سے بھروسہ نہیں کرتے ہیں، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اپنے تعلقات میں تنوع چاہتے ہیں۔‘

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چین نے جہاں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے ہیں، وہیں بیجنگ نے بحیرہ جنوبی چین جیسے معاملات پر غصے کو مہمیز دی ہے، جہاں وہ بین الاقوامی ثالثی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وسیع و عریض سمندری علاقے پر اپنا حق دعویٰ جتاتا ہے۔

کارنیگی چین سے وابستہ اسکالر ایان چونگ نے خبردار کیا کہ سروے کے نتائج سے سمجھنا چاہیے کہ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ جنوب مشرقی ایشیائیوں نے جنوری اور فروری 2024 کے دوران کیسا محسوس کیا۔

’یہ ضروری نہیں کہ چین نواز ہوں، یہ امریکا مخالف جذبات غزہ میں اسرائیل کی ضرورت سے زیادہ کارروائیوں کی حمایت سے منسلک ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کی حمایت کا مطلب ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی ممکنہ کارروائی ویٹو کے ذریعے روکنے کے لیے تیار ہے۔‘

امریکہ اور چین کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے باوجود، معیشت نے سروے کے جواب دہندگان کے دیگر خدشات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، 57.7 فیصد جواب دہندگان نے بے روزگاری اور کساد بازاری کے امکانات کو خطے کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک قرار دیا، جبکہ 53.4 فیصد نے موسمیاتی تبدیلی کو نشان زد کیا۔

یوسف اسحاق انسٹی ٹیوٹ نے سروے کے ساتھ جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ خطہ عالمی معیشت کے ضمن میں تاریک معاشی امکانات کے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے کیوںکہ جنوب مشرقی ایشیائی باشندوں کی اکثریت بے روزگاری اور معاشی کساد بازاری سے خوفزدہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp