پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس محمد ابراہیم خان نے بدھ 3 اپریل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے شکوہ کیاکہ سپریم کورٹ میں 4 ججز کی آسامیاں خالی تھیں لیکن آپ نے پختونخوا کو نظر انداز کرکے سپریم کورٹ میں صرف ایک جج کا تقرر کیا اور وہ بھی اپنے صوبے سے، بطور ممبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل مجھے امید تھی کی بطور سپریم کورٹ جج میرے نام پر غور کیا جائےگا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
جسٹس ابراہیم خان 14 اپریل کو اپنے منصب سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور کیا جسٹس ابراہیم خان کا یہ شکوہ جائز ہے کہ سپریم کورٹ جج کے لیے ان کے نام پر غور کیوں نہیں کیا گیا؟ وی نیوز نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ میں ججز کا تقرر کون کرتا ہے؟
سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے ایک الگ ادارہ قائم ہے جسے سپریم جوڈیشل کمیشن کہتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ترین ججز، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیرقانون اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ہوتا ہے جو سپریم کورٹ میں ججوں کا تقرر کرتا ہے۔
آئین پاکستان میں 18ویں اور 19ویں ترمیم کے بعد اب سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے تعیناتی کے حوالے سے سفارشات پارلیمنٹری کمیٹی کو بھجواتی ہے۔ جس کی منظوری کے بعد صدر مملکت سپریم کورٹ ججوں کی تعیناتی کی منظوری دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر سنیارٹی لسٹ میں جسٹس ابراہیم خان 37 ویں نمبر پر ہیں: جسٹس (ریٹائرڈ) شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے پانچوں ہائیکورٹس کے ججز کی مجموعی سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ابراہیم خان اس وقت ججز کی مجموعی طور پر سنیارٹی لسٹ میں 37 ویں نمبر پر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عقیل احمد عباسی سنیارٹی لسٹ میں پہلے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان دوسرے نمبر پر ہیں۔ ’چونکہ جسٹس ابراہیم خان 14 اپریل کو ریٹائر ہو رہے ہیں اس لیے ان کے ذہن میں ہوگا کہ ان کو سپریم کورٹ کا جج مقرر ہونا چاہیے حالانکہ جسٹس مسرت ہلالی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کو تھوڑا ہی وقت گزرا ہے جس کے بعد جسٹس ابراہیم خان پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے ہیں۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ اگر سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں گے تو میرا نہیں خیال کہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کوئی امتیازی سلوک کیا ہے اور اس لیے میرے خیال میں جسٹس ابراہیم خان کا شکوہ جائز نہیں۔
انہوں نے کہاکہ جسٹس نعیم اختر افغان جسٹس ابراہیم خان سے سینیئر ہیں اور سنیارٹی کے اصول ہی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں لائے گئے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے صوبائی کوٹہ تو ہے نہیں لیکن کوشش یہ کی جاتی ہے کہ تمام صوبوں کو نمائندگی دی جائے۔ سنیارٹی کے اصول کی بنیاد پر اگر ایک جج چالیسویں نمبر پر آتا ہے تو 39 ججوں کو ان پر فوقیت دی جائے گی۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ جسٹس ابراہیم خان کا اس طرح کی بات کرنا ان کے منصب کے مطابق ہے۔
سابق جج ہائیکورٹ نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ کے ایک اور جج جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سپریم کورٹ میں اپنی تعیناتی کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی لیکن ان کا موقف درست تھا، کیونکہ اس وقت سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ لایا گیا تھا جس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ کا احتجاج جائز تھا۔
پچھلے دور میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی: امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس ابراہیم سے پہلے جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی ایسا ہی شکوہ کرچکے ہیں، مگر دونوں کے شکوے میں بہت فرق ہے۔ بلکہ جسٹس وقار سیٹھ (مرحوم) کی درخواست ابھی تک زیرسماعت ہے۔
انہوں نے کہاکہ جسٹس ابراہیم خان سنیارٹی میں 37ویں نمبر پر ہیں لیکن ان کی خواہشات بہت زیادہ ہیں۔
امان اللہ کنرانی نے کہاکہ سپریم کورٹ ججوں کے تقرر میں صوبوں کی نمائندگی والی بات نہیں بلکہ الجہاد ٹرسٹ کیس 1996 میں سپریم کورٹ یہ طے کرچکی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کا تقرر سنیارٹی کا بنیاد پر ہو گا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سنیارٹی کے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا، کیونکہ جب جسٹس منیب اختر کو سندھ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لایا گیا وہ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھے، اسی طرح جسٹس عائشہ ملک بھی چوتھے نمبر پر تھیں اور جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر کو سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا تھا۔
امان اللہ کنرانی نے کہاکہ اب تو سنیارٹی کے اصول پر عمل ہورہا ہے اور جو بھی جج سپریم کورٹ آیا ہے وہ جسٹس ابراہیم خان سے سینیئر ہی ہے، جونیئر نہیں۔
ایسے شکوے شکایتیں مخفی انداز میں ہونے چاہیئیں، کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس محمد ابراہیم خان کو اگر ایسی شکایت کرنا ہی تھی تو انہیں پردے کے پیچھے کرنا چاہیے تھی، اس طرح سے خط لکھ کر سرِعام اس طرح کے شکوے شکایات مناسب نہیں۔ اب اگر یہ کہہ دیا جائے کہ آپ کے نام پر غور کیا گیا اور آپ کو مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں پایا گیا تو کیا عزت رہ جائے گی۔ عدالتوں اور ججز کی ایک توقیر ہے، ایک عزت ہے جس کو کسی طور کم نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ ججز تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول کارفرما ہوتا ہے، اصول یہ طے ہوا تھا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان میں سے جو چیف جسٹس سینیئر ہوگا اسے سپریم کورٹ لایا جائےگا۔