پاکستان ذہنی صحت کے معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سے بہتر، لیکن کیسے؟

پیر 8 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ذہنی صحت ہماری جذباتی، نفسیاتی اور سماجی بہبود کا احاطہ کرتی ہے جس سے ہمارے سوچنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے طریقے متاثر ہوتے ہیں۔

یہ ہماری روزمرہ زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ ایک مکمل اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے ذہنی صحت  بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ جسمانی صحت،  بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

پاکستانیوں کی ذہنی صحت اور بین الاقوامی رپورٹس

مختلف علاقائی اور بین الاقوامی سروے رپورٹس میں پاکستان میں ذہنی صحت کو کئی ترقی یافتہ ممالک سے بہتر ظاہر کیا گیا ہے۔

حال ہی میں سامنے آئے والی گلوبل مائنڈ پروجیکٹ کی سنہ 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مجموعی ذہنی تندرستی کے حوالے سے انگلینڈ سے بھی آگے ہیں۔

اس رپورٹ میں 71 ممالک کی مجموعی ذہنی تندرستی پیش کی گئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ذہنی تندرستی کے معاملے میں پاکستان 56 ویں  نمبر  پر ہے جبکہ اسی فہرست میں انڈیا 61 ویں  اور برطانیہ 70 ویں نمبر پر ہے۔

دوسری جانب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دماغی امراض پاکستان کی مجموعی بیماریوں کا 4 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح زیادہ ہے۔

گلوبل مائنڈ پروجیکٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا 28 فیصد حصہ پریشان یا ذہنی نا آسودگی کا شکار ہے۔

اسی ادارے کی سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں 18 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں سے 35 فیصد ذہنی طور پر غیر آسودہ ہیں۔

برطانیہ میں اسی عمر کے لوگوں کا صرف 19 فیصد ذہنی طور پر پریشان بتایا  گیا تھا۔

تاہم پاکستانی ڈاکٹروں نے مذکورہ رپورٹ سے مکمل اتفاق نہیں کیا اور ان کے خیال میں پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی شرح اتنی کم نہیں ہوسکتی۔

ذہنی تندرستی کی  درست عکاسی نہیں ہوتی، ڈاکٹر شازیہ

ماہر نفسیات ڈاکٹر شازیہ کے مطابق  پاکستان میں ذہنی صحت کے بارے میں کھل کر کیا چھپا کر بھی بات نہیں کی جاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر  لوگ دماغی صحت کے مسائل کو بالکل رپورٹ نہیں کرتے اور جب وہ رپورٹ ہی نہیں کرتے تو شمار میں بھی نہیں آتے جس سے ڈیٹا براہ راست متاثر ہوتا ہے اور درست اعداد و شمار جمع نہیں ہو سکتے۔

ڈاکٹر شازیہ کے بقول اگر پاکستان کے لوگوں کا موازنہ برطانیہ کے لوگوں سے کریں تو وہاں پر افراد کے ذہنی طور پر فٹ ہونے کا زیادہ امکان ہے کیونکہ وہاں دماغی صحت کے بارے میں بات کرنا ممنوع نہیں ہے اور اس کا  علاج معالجہ کرنا ایک عام صحت کی تشویش کی طرح ہے۔

ہمارے ہاں آن لائن سروے کے ذریعے درست سیمپلنگ ممکن نہیں، ڈاکٹر نعیم

برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر نعیم کا کہنا ہے کہ برطانیہ مجموعی ذہنی تندرستی کے معاملے میں پاکستان سے پیچھے نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر نعیم نے کہا کہ پاکستان میں تو ذہنی صحت کا تصور ابھی بڑے بڑے شہروں تک ہی پہنچا ہے جبکہ گاؤں دیہات میں نفسیاتی مسائل کو ابھی تک جنات کا سایہ ہونا ہی سمجھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے والے چند شہری افراد سے سوال کر کے آن لائن سروے رپورٹس مرتب کر لی جاتی ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کی کتنی فیصد آباد ی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے اور ان میں سے دیہی کتنی ہے اور شہری کتنی ہے؟

ڈاکٹر نعیم نے کہا کہ ہمارے ملک میں تو ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ابھی تک بجلی کی سہولت تک نہیں پہنچی، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تو بہت دور کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں آن لائن سروے کے ذریعے درست سیمپلنگ ممکن ہی نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی برداشت برطانیہ والوں سے بہرحال بہت زیادہ ہے جو بات یا واقعہ برطانیہ والوں کے لیے بہت بڑا طوفان ہوتا ہے اور ان کے لیے سخت دباؤ کا باعث بنتا ہے وہ پاکستانیوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔

جذبہ ایمانی اور ذہنی صحت

ڈاکٹر شازیہ نے کہا کہ پاکستان کی جو آبادی ذہنی طور پر صحت مند ہےاس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں  لوگ مذہب سے سکون کشید کر لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب لوگ مذہب یا روحانیت کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں  تو تھراپی میں  ایمانی طاقت بھی شامل ہوجاتی ہے کیونکہ لوگوں کا اپنے عقیدے پر پختہ یقین ہوتا ہے جو انہیں اچھی ذہنی حالت میں رہنے میں مدد کرتا ہے۔

بحریہ یونیورسٹی میں گریجویٹ ریسرچ کے دوران پاکستان میں ذہنی تندرستی پر تحقیق کے ذریعے راقم الحروف نے جانا کہ جو لوگ زیادہ  سماجی کاموں میں حصہ لیتے اور مذہبی ہوتے ہیں ان کی ذہنی صحت دیگر افراد کی نسبت بہتر ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مذہبی ہونا ہی ان کی  اچھی ذہنی صحت کا راز ہو بلکہ اس کے پیچھے ان کا  ٹھیک ہونے کا پختہ یقین بھی شامل ہوتا ہے۔

تاہم تحقیق کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق 350 افراد میں سے 75 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ مذہب کا ان کی ذہنی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ مذہبی احکامات پر عمل کرنے اور  اچھے کام کرنے سے انہیں کسی نہ کسی طرح اجر ملے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp