پی سی او ایس، روز ذہنی اذیت سے جنگ لڑتی ہوں

ہفتہ 23 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’میرا رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد میں شدید ڈپریشن میں چلی گئی تھی، بلکہ میری امی بھی، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ شاید میں واقعی کبھی ماں نہیں بن سکوں گی اور وہ 1 سال میرے لیے عذاب بن چکا تھا، یہی وجہ تھی کی مجھے ہارمونل ایشوز بڑھ گئے اور میرا پولی سیسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) معمولی سے شدت اختیار کرنے لگا گیا تھا‘۔

28 برس کی کرن 2 بچوں کی ماں ہیں۔ اور ان کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ پی سی او ایس سے گزشتہ 2 برس سے لڑ رہی ہیں، کہتی ہیں کہ میرے چہرے پر غیر ضرروی بال جب بڑھنے لگے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے اتنی آگہی تھی کہ ہارمونل چینجز کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ْ

’میری امی کی کزن نے گائنی کا ڈپلوما کر رکھا تھا اور وہ اپنا ایک کلینک چلا رہی تھیں، میں نے ان سے اس بارے میں کہا کہ میرے ہارمونز کی وجہ سے شاید میرے چہرے پر غیر ضروری بال آ رہے ہیں۔ ابھی یہ بولا ہی تھا تو وہ یک دم حیرت زدہ ہو کر بولنا شروع ہو گئیں، توبہ کرو کیسی باتیں کر رہی ہو، تم تو کبھی ماں ہی نہیں بن پاؤ گی، جب انہوں نے یہ جملہ بولا تو میری امی پرشان ہو گئیں‘۔

وہ کہتی ہیں کہ اسے اس وقت پولی سیسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) کی شدت معمولی سی تھی اور اس کو ماہواری سے متعلق کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس کی امی کی کزن کی وجہ سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا، کیونکہ انہوں نے پورے خاندان میں جا کر بتایا کہ یہ لڑکی کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔

وہ وقت نہ صرف کرن کے لیے بلکہ اس کی ماں کے لیے بھی عذاب بن گیا تھا۔ کہتی ہیں کہ اسے ’پی سی او ایس‘ بہت معمولی سا تھا لیکن اس حادثے کے بعد وہ شدت اختیار کر رہا تھا، چونکہ اس کی پسند کا رشتہ تھا اس لیے وہ ہر وقت سوچتی تھیں کہ وہ خود کو ختم کر دیں اور میں نے بہت بار کوشش بھی کی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری امی کی کزن کے بتانے کے چند ہی دن بعد والدہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں، ڈاکٹر نے بس دوائیاں دیں، لیکن اس کے باوجود مجھے ماہواری کا مسئلہ شروع ہو گیا، جس کے بعد میں دماغی طور پر مزید پریشان اور خود کو بے بس محسوس کرتی تھی، میں نے دوائیاں لینا بھی چھوڑ دیا۔ یہ جو خود کے ساتھ جنگ تھی یہ مجھے پاگل کر رہی تھی‘۔

مزید بات کرتے ہوئے کرن نے بتایا کہ اسے پھر اس کی کسی دوست نے ایک ڈاکٹر کا بتایا جس نے نہ صرف اسے دوائیاں دیں، بلکہ اسے سمجھایا اور بتایا کہ اس نے خود کو کیسے ان حالات سے نکالنا ہے اور اس کے بعد وہ دن بہ دن بہتر ہوتی گئیں۔

’خاندان میں تو نہیں لیکن ایک جاننے والے نے میرے والدین سے رشتے کی بات کی اور پھر میری 1 سال کے بعد شادی ہو گئی، میں آج بہت خوش ہوں اور میرے 2 بچے ہیں، مجھے لگتا ہے اس وقت آگاہی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یہ چیزیں نارمل ہیں اور فضول باتیں کر کے لڑکیوں کی زندگیاں تباہ نہ کی جائیں اور ایک اچھے ڈاکٹر کو دیکھایا جائے کیونکہ اس کا حل دوائیاں ہرگز نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ دماغی صحت اور تھراپیز کئی زیادہ ضروری ہیں‘۔

لوگ موٹی تو کہہ دیتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کی وجہ نہیں جاننا چاہتے

کرن کا کہنا تھا کہ ’ایک صبح جب میری آنکھ کھلی اور میں نے خود کو شیشے میں دیکھا تو میں بہت زیادہ روئی۔ کیونکہ میرے چہرے پر غیر ضروری بال نمودار ہو گئے تھے اور پورا چہرہ ایکنی سے بھرا ہوا تھا، میں خود یک دم دیکھ کر شدید گھبرا گئی اور میں نے اپنی پوری الماری کے کپڑے باہر نکالے اور پاگلوں کی طرح پہن کر چیک کرنے لگی کہ مجھے کپڑے کتنے تنگ ہو چکے ہیں۔‘

25 برس کی ماریہ کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہے جو گزشتہ 6 برس سے پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) سے گزر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ وہ مرض ہے جو ختم نہیں ہوتا لیکن اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس بیماری کا علم تب ہوا، جب نہ صرف وہ تھکن محسوس کرتی تھیں بلکہ وہ ہر چھوٹی بات پر اپنے گھر والوں پر چیخنا اور چلانا شروع کر دیتی تھیں۔

ماریہ نے اپنے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے ماہواری کے حوالے سے کچھ مسائل تھے اور زیادہ تر اس میں ماہواری کا وقت پر نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ تھا، چونکہ وہ جس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں وہاں یہ سب باتیں کھلم کھلا نہیں کی جاتیں اس لیے وہ خود تو محسوس کرتی تھیں لیکن کبھی کسی سے اس سے متعلق نہیں کہا تھا۔

ان کاکہنا تھا کہ’مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی تھی جب میرے بال اس طرح گرتے تھے جیسے سر کے سبھی بال جلد سے اکھڑے ہوئے ہوں اور میرا وزن بھی کافی گر گیا تھا۔ چونکہ میری بہن ڈاکٹر تھی اس لیے جب اس نے دیکھا کہ میری اس حالت کی یقیناً کوئی وجہ ہوگی اور اسے شک بھی تھا۔ تو اس نے میرا الٹرا ساؤنڈ کروایا جس سے پتا چلا کہ میری اووریز پر پانی کی تھیلیاں بن چکی ہیں اور ’پی سی او ایس‘ شدت اختیار کر چکا ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب دوائیاں لینے لگی تو سائیکل بہتر ہوگیا اور تقریباً 5 ماہ کے بعد دوبارہ پھر سے ایک دن جب میں صبح اٹھی اور خود کو شیشے میں دیکھا تو گھبرا کر رونے لگی، کیونکہ میرا چہرہ ایکنی سے بھرا ہوا تھا اور غیر ضروری بال بھی آ رہے تھے۔

اس صورت حال نے مزید خوف میں مبتلا کر دیا کیونکہ اس بار وزن بھی بڑھ رہا تھا۔ اس لیے روتے ہوئے اس نے الماری کے تمام کپڑے پہن کر دیکھنا شروع کر دیے کہ وہ کتنی موٹی ہو چکی ہے۔ آیا اسے پرانے کپڑے پورے آئیں گے بھی یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ’یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ ایک جنگ ہے جو آپ خود سے روز لڑتے ہیں۔ ہر دن آپ کے لیے ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ کبھی دل چاہتا ہے سب ختم کر دوں، کیونکہ ذہنی اذیت ہے، کیونکہ کچھ لمحوں کے لیے اچھا محسوس ہوتا ہے تو اس کی چند گھڑیاں گزرنے کے بعد آپ کو وہی چیزیں بری لگ رہی ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوکری کرنا مجھے پسند ہے، مگر کبھی دل چاہتا ہے کہ چھوڑ دوں، اس بیماری نے سب سے زیادہ میرے اعتماد کو تباہ کیا ہے، مجھ میں کبھی اسٹیج انزائٹی نہیں تھی اور اب میں کسی سے بات نہیں کر پاتی۔ میرے ہاتھ کانپتے ہیں اور مجھے اپنی اس حالت پر بہت افسوس ہوتا ہے‘۔

اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شادیوں میں جاتی ہوں تو جھٹ سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ’کتنی موٹی ہو گئی ہو تم‘لیکن اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے، بہت شدید تکلیف ہوتی ہے جب لوگ ایسا بولتے ہیں، لیکن اب خاندانی تقریبات میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔

ایک وقت ایسا آیا کہ میں بولنا بھول گئی تھی

یسریٰ مرتضی کانٹنٹ کریئٹر ہیں، کہتی ہے کہ گزشتہ تقریباً 9 برس سے وہ ’پی سی او ایس‘ میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ماہواری کا وقت پر نہ ہونا، لائف اسٹائل اور ڈائٹ کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ اس کے گرد موجود لوگ اسے کہتے تھے کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئیں تو اس کو ڈاکٹر نے بھی کہا کہ خیر ہے ہو جاتا ہے اور دوائیاں دے دیں۔

’جب میں دوائیاں کھاتی تھی اس وقت ماہواری کا جو سائیکل ہوتا وہ ٹھیک ہو جایا کرتا، لیکن جیسے ہی چھوڑتی پھر سے وہی مسئلہ شروع ہو جاتا۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس کی علامات بڑھتی جا رہی تھیں، چہرے پر غیر ضروری بال بڑھ رہے تھے۔

جس کے بعد دوبارہ سارے ٹیسٹ کروائے تو اس بار ڈاکٹر نے کہا کہ نہیں تمہیں ’پی سی او ایس‘ نہیں ہے۔ پھر دوائیاں دیں 3 مہینے کھائیں اور جب چھوڑیں پھر وہی مسائل دوبارہ شروع ہو گئے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد چہرے پر غیر ضروری بال، وزن، ایکنی اور اس کے علاوہ چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی تھی۔ مزاج میں تبدیلی یک دم سے آ جاتی تھی۔

پھر وہ جب ڈاکٹر کے پاس گئیں تو اس نے کہا کہ تمہیں پی سی او ایس ہے اور اس ڈاکٹر نے بھی وہی دوائیاں دیں جو پہلے سے استعمال کر چکی تھیں، صرف ایک ٹیبلیٹ مختلف تھی۔

’اس دوائی کے اتنے برے اثرات مجھ پر ہوئے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے لگا کہ مجھے نہیں جینا۔ کیوں کہ وہ دوائیاں کھانے سے میں ذہنی طور پر بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور میں اس نہج پر آ گئی کہ میرا دماغ بولنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا ہوتا تھا مگر میرے پاس الفاظ نہیں ہوتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ وقت اتنا برا تھا کہ میں ڈاکٹر کے پاس گئی اور میں نے انہیں کہا کہ میں مزید دوائیاں نہیں کھاؤں گی اور جب میں نے وہ چھوڑ دیں تو میں 1 ہفتے کے بعد ہی بہتر محسوس کرنے لگ گئی تھی۔ میرا دل اور دماغ ڈاکٹرز کے لیے بہت برا ہو چکا تھا اور میں نے سوچا کہ میں اب مزید علاج نہیں کرواؤں گی‘۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے میں نے خود بھی ’پی سی او ایس‘ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کہ آخر یہ کیا اور کیوں ہوتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر نے کبھی بتایا تھا، لیکن سرچ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کو جنیاتی بیماری نہیں ہے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کا جسم شوگر کی مزاحمت نہیں کرتا، تو اس کے ساتھ آپ کو اپنے لائف اسٹائل کو متوازن رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پڑھا کہ ’پی سی او ایس‘ جس کو بھی ہو وہ ’پری ڈائبیٹک‘ ہوتا ہے اور اگر یہ شدت اختار کر لے تو آپ کو ’ٹائپ ٹو ڈائبیٹیز‘ بھی ہو سکتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، لیکن اپنے لائف اسٹائل سے اس کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

کیوں کہ یہ پوری زندگی آپ کے ساتھ چلتا ہے۔لیکن کوئی ڈاکٹر آپ کو یہ نہیں بتاتا کہ آپ کو اپنا لائف اسٹائل، غذا اور ذہنی تناؤ پر سب سے زیادہ دیہان دینا ہے اور یہ سب ریسرچ کر کے میں نے خود کا طرز زندگی بدلا ہے اور میں اب کافی حد تک ٹھیک ہوں‘۔

 اس حوالے سے گائینکالوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بلکل غلط ہے کہ اس بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا جبکہ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہ بیماری آپ کو دوبارہ بھی ہو سکتی ہے۔

لیکن اس بیماری کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور ایک عام انسان کی طرح زندگی بھی گزاری جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی غذا اور جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ سٹیرائڈ کے استعمال کو ترک کیا جائے، اسی لیے ڈاکٹر فارمی انڈے اور مرغی کے گوشت کو منع کرتے ہیں، اس کے علاوہ چکنائی سے بھرپور غذاوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

’ پی سی او ایس کا شکار خواتین میں ماہواری میں بے قاعدگی، چہرے اور جسم پر سخت اور غیر ضروری بال نکلنا، جلد پر موٹے دانے اور کیل مہاسے نکلنا، بالوں کا  گرنا، تیزی سے وزن کا بڑھنا یا کم ہونا اور رحم پر رسولیوں کے باعث بانجھ پن جیسی علامات ظاہر ہو تی ہیں ۔‘

پی سی او ایس کی وجوہات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ کہتی ہیں کہ یہ بیماری جنیاتی بھی ہو سکتی ہے اور بعض اوقات اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا طرز زندگی ہے۔ اگر کوئی خاتون کوئی ایسی دوا لے رہی ہے جس میں سٹیرائیڈ ہوں اور اس کو لیتے ہوئے کافی وقت بھی گزر جائے تو اسے بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔

اس کے بارے میں سب سے بڑی اور غلط بات جو کہی جاتی ہے وہ یہ کہ ایسی خواتین ماں نہیں بن سکتیں اس کا حاملہ نہ ہونے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ اس سے نمٹنے کے لیے دوائیوں سے کہی زیادہ جسمانی سرگرمیاں، اچھی خوراک اور دماغی صحت کو برقرار رکھنا مؤثر علاج ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp